کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 16
قلعہ والے بھی ہمرکاب تھے۔ جب آپ بلو والی (ایک گاؤں) پہنچے۔ یہ گاؤں میرے ددھیال کا گاؤں تھا۔ یہاں میرے دادا کے چچا اور چچا زاد بھائی کا گاؤں تھا۔ نام تو مشہور تھا خصوصاً مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ کو تو بہت زیادہ لوگ جانتے تھے۔ گاؤں کے چند چیدہ آدمی حضرت مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وعظ کی درخواست کی تو مولانا نے فرمایا کہ حضرت مولانا عبداللہ ساتھ ہیں، ان کا مقام شیخ اور خلیفہ کا ہے۔ اُن کی اجازت کے بغیر وعظ نہیں کر سکتا۔ وہ مجمع اسی طرح حضرت مولانا عبداللہ رحمۃ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ فرمایا: ’’ایں مرد ماں چہ می گویند؟‘‘ بتایا گیا تو مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے:
’’مولانا! قابلِ وعظ شدی؟‘‘
مولانا خاموش۔ کاٹو تو خون نہیں بدن میں۔ جب کچھ جواب نہ ملا تو فرمایا: ’’مولانا! آپ منبر پر بیٹھے ہوئے کلمۃ الحق کہہ رہے ہوں۔ ایک شخص حاضرین میں سے اُٹھتا ہے۔ وہ آپ کے منہ پر دو دھول لگاتا اور داڑھی سے پکڑ کر منبر سے نیچے پھینک دیتا ہے۔ آپ کے چہرہ پر ایک بل یا شکن نہیں پڑتا۔ آپ اُٹھتے ہیں اور اسی خندہ پیشانی اور جوش سے کلمۃ الحق کہنا شروع کر دیتے ہیں، تو اس وقت سمجھیے کہ آپ وعظ کے قابل ہو گئے ہیں۔‘‘ ایک دن میاں غلام رسول صاحب کی کسی بات پر خفا ہو کر کہنے لگے:
’’مولوی غلام رسول! تو مولوی شدی، محدث شدی، عالم شدی، وعظ شدی، واللہ ہنوز مسلمان نشدی۔‘‘
یہ کہنا تھا کہ مولوی غلام رسول فرش پر گر گئے اور تڑپنے لگے۔
پھر فرمایا: بگو لا الٰہ الا اللہ کہتے ہیں اور مولانا کا بیان ہے کہ اُس وقت مسجد کے درودیوار سے لا الٰہ الا اللہ کی آواز آ رہی تھی۔
غرض حضرت مولانا کی زندگی ایک عجیب صبر و استقامت اور اعتماد و توکل علی اللہ کی