کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 15
اُن دنوں کتابت آسان کام نہ تھا۔ سنا ہے کہ سیالکوٹی کاغذ کو کچھ گھوٹنا پڑتا تھا۔ سیاہی بھی خود بنانی اور درست کرنا پڑتی تھی، چنانچہ کئی دن کے بعد جب یہ کتاب نقل کر کے لے گئے تو چونکہ خط بہت اچھا اور صاف تھا، بےحد خوش ہوئے۔ ایک روز نمازِ عصر کے بعد پھوپھا صاحب نے فرمایا کہ حضرت میرے لیے بھی دعا فرمائیں۔ پوچھا کیا دعا کروں؟ عرض کیا کہ مجھے دردِ سر کا کبھی ایسا شدید دَورہ پڑتا ہے کہ میں بے حال ہو جاتا ہوں اور میری نمازیں قضا ہو جاتی ہیں۔ دعا فرمائیں کہ یہ شکایت دور ہو جائے۔ میری نماز باجماعت قضا نہ ہو۔ ایک تیسری اور چیز کہی، مگر وہ میری یاد سے نکل گئی ہے۔ بہرحال چند منٹ ہاتھ اُٹھا کر دعا کی اور فرمایا: ’’قبول شد ان شاء اللہ۔‘‘
میرے دادا (والد صاحب کے پوپھا) اس وقت بالکل جوان تھے۔ ستر سال کی عمر پائی۔ گویا قریباً دعا کے بعد پنتالیس پچاس سال زندہ رہے۔ دردِ سر کا دَورہ ایک مرتبہ بھی اس مُدت میں نہیں ہوا۔ سفر و حضر میں نماز باجماعت کبھی قضا نہیں ہوئی۔ آخری رات عشاء کی نماز باجماعت پڑھی۔ تہجد کی نماز پوری پڑھی کہ وقت آ گیا۔ ذکر شروع کر دیا اور صبح کی نماز سے قبل جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔
؎ خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طنیت را
دعا کی قبولیت یقیناً تعجب انگیز اور داعی کے کمال درجہ مستجاب الدعوات ہونے کی دلیل ہے لیکن دعا کرانے والے کی للہیت بھی قابلِ توجہ ہے کہ کوئی چیز دنیوی نہیں مانگی۔ تینوں چیزیں دین کی اور آخرت کی مانگیں۔ انہی لوگوں کے حق میں قرآن حکیم کہتا ہے:
﴿مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ﴾
سیالکوٹ کا سفر
ایک مرتبہ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل۔ عید میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مولانا غلام رسول صاحب