کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 14
’’مولوی عبداللہ حدیث ہم سے پڑھ گیا اور نماز پڑھنی ہمیں سکھا گیا۔‘‘ محویت کی عجیب و غریب کیفیت تھی جو نہ صرف ان پر بلکہ بعض رفقاء پر بھی طاری ہو جایا کرتی تھی۔ میرے ایک اُستاذ مولوی حافظ عبدالرحمٰن مرحوم تھے جن سے میں نے حدیث کی مشہور کتاب ریاض الصالحین پڑھی۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ قیام امرتسر میں جب وہ حضرت مولانا سے حدیث پڑھا کرتے تھے تو اُن کی محویت کے عجیب و غریب واقعات دیکھنے میں آئے۔ ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ یکایک سخت بارش شروع ہو گئی۔ ایسی سخت کہ مقتدی سب نماز چھوڑ کر بھاگ گئے۔ صرف دو چار رہ گئے۔ نماز سے فارغ ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھ سب کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ فرمانے لگے: ’’باراں شد؟ واللہ عبداللہ را خبر شد۔‘‘ نماز عصر کے بعد اُن کے خاص وقت تھا۔ جن لوگوں کو دعا کرانی ہوتی، وہ اُس وقت پہنچ جاتے۔ میرے والد بزرگوار کے پھوپھا مولوی غلام قادر کو اُن سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ ایک مرتبہ وہ امرتسر پہنچ گئے تو نماز کے بعد اپنا تعارف کرایا کہ میں دلاور کے فلاں خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ مولانا غلام رسول قلعہ والوں اور میرے دادا مرحوم و مغفور مولوی غلام احمد(رحمہم اللہ) میں بڑی دوستی تھی۔ چنانچہ مولانا غلام رسول مرحوم ہمیشہ دلاور سال میں متعدد مرتبہ تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت والد مرحوم و مغفور کو بسم اللہ حضرت مولانا نے کرائی تھی اور دعا بھی کی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کو ہمارے خاندان سے تعارف ضرور ہو چکا ہو گا! چنانچہ جب مولوی غلام قادر صاحب نے اپنا تعارف کرایا تو فرمایا: ’’پھر تو تم ضرور علم سے کچھ دسترس رکھتے ہو گے۔ انہوں نے ازراہِ انکسار عرض کیا۔ کچھ شُدبُد رکھتا ہوں۔‘‘ ایک دن حضرت نے اپنی کسی کتاب کا ایک قلمی نسخہ نکالا اور مولوی غلام قادر سے فرمایا کہ ’’کچھ کتابت کر سکتے ہو تو یہ چھوٹی سی کتاب نقل کر دو۔‘‘