کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 13
اصحابِ ثلاثہ معلوم ہوتا ہے یہاں پہنچتے ہی ان کے روابط مولانا غلام رسول صاحب قلعہ والوں اور مولانا حافظ محمد لکھو کی والوں کے ساتھ بہت بڑھ گئے اور تینوں بزرگوں (رحمہم اللہ) نے فیصلہ کیا کہ حدیث کی سند حضرت میاں نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ سے لی جائے، چنانچہ تینوں نے لکھ کر حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت مانگی اور اجازت آنے پر فوراً روانہ ہو گئے۔ اُس وقت تک ابھی ریل جاری نہیں ہوئی تھی۔ لوگ گھوڑے گاڑیوں پر پڑاؤ پڑاؤ ہوتے ہوئے دہلی پہنچتے تھے۔ جس وقت یہ تینوں بزرگ دہلی گاڑیوں کے اڈے پر پہنچے تو ایک بزرگ آدمی کو وہاں موجود پایا۔ جس نے ان سے پوچھ کر کہ کہاں کا قصد ہے؟ ان کا اسباب اُٹھا لیا اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو وہاں پہنچا دوں گا۔ وہ بزرگ ان تینوں بزرگوں کا سامان اُٹھا کر میاں نذیر حسین صاحب کی مسجد میں لے گیا۔ ان کا اسباب وہاں رکھا اور خود غائب ہو گیا۔ یہ حیران کہ اس مزدور نے پیسے بھی نہیں لیے اور کہاں چلا گیا ہے۔ جب کافی وقت گزر گیا تو اُنہوں نے کسی صاحب سے دریافت کیا کہ میاں صاحب کہاں ہیں اور کب تک آئیں گے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ یہ میاں صاحب ہی تو تھے جو آپ کا سامان لائے ہیں۔ اب وہ غالباً گھر آپ کے کھانے کا کہنے گئے ہیں۔ یہ تینوں بزرگ دل ہی دل میں بڑے نادم ہوئے؟ چنانچہ جب حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ واپس تشریف لائے اور کھانا بھی لے آئے تو اُنہوں نے بہت ہی معذرت شروع کی، تو میاں صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’آپ تحصیلِ حدیث کے لیے تشریف لائے ہیں تو حدیث بجز اس کے کیا ہے کہ خدمتِ خلق۔ یہی حدیث کا پہلا سبق ہے۔‘‘ مجھے اپنے بزرگوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے جن کو خود حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے شرفِ تلمذ حاصل تھا کہ میاں صاحب فرمایا کرتے تھے: