کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 12
دربارِ کابل میں طلبی
چنانچہ دربار شاہی میں بلایا گیا کہ یا تو علمائے وقت کے مطاعن کا جواب دیں یا اپنے عقائد و خیالات کی تبلیغ سے توبہ کریں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کابل، غزنی بلکہ افغانستان کے بڑے بڑے علماء جمع تھے۔ تمام علماء اس طرح ساکت و صامت بیٹھے تھے کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کسی شخص کو اعتراض کرنا یکطرف یا رائے گفتگو تک نہ ہوا۔ شاہ افغانستان نے علماء کی مخالفت سے مجبور ہو کر گھر جا کر انہیں حکم دیا کہ افغانستان سے نکل جائیں، چنانچہ آپ نے اپنا رختِ سفر باندھا جو بہت مختصر تھا اور ’’بخت افگانستان خوابیدہ شد و بخت ہندوستان بیدار شد‘‘ کہتے ہوئے کابل سے نکل کھڑے ہوئے۔
غزنی سے امرتسر
ہمارے ہاں یہ مشہور تھا، معلوم نہیں کہاں تک درست ہے کہ اُن کے ساتھ ایک بچی تھی جس کا عقد اُنہوں نے راستہ میں ایک نہایت ہی خدا پرست مرد سے کر دیا تھا، جو ذات کا جلاہا مشہور تھا۔ جب انہیں کہا گیا تو فرمایا: ہمیں است سید۔ ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ﴾۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ غزنی سے سیدھے امرتسر تشریف لے گئے اور مستقلاً یہاں اقامت گزیں ہو گئے یا راستہ میں قیام کرتے کرتے یہاں پہنچے۔ بہرحال امرتسر کو اُنہوں نے اپنا مستقل مستقر قرار دے لیا۔ امرتسر پہنچتے ہی وہ تمام لوگوں کے مرکزِ توجہ بن گئے۔
امرتسر سے دہلی
چونکہ طبعاً سخت پابندِ سنت تھے، بلکہ کہنا چاہیے کہ سنت کے عاشق تھے، اس لیے فنِ حدیث کی تکمیل کا شوق غالب ہوا۔