کتاب: حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 11
مولانا داؤد غزنوی کے دادا مولانا عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک فقید المثال شخصیت تھی۔ جس میں بیک وقت علم دین اور تصوف جمع ہو گئے تھے۔ ان کے متعلق ہمارے خاندان میں مشہور ہے کہ وہ مادر زاد ولی تھے۔ چنانچہ وہ تحصیلِ سلوک کے شوق میں اپنے پیر و شیخ سے ملنے گئے جو اُس وقت افغانستان کے مشاہیر صوفیاء اور اولیاء میں سے تھے۔ یہ اُن کی خدمت میں جب پہلی مرتبہ حاضر ہوئے تو سنا ہے کہ کچھ عرصہ بیٹھ کر واپس چلے آئے۔ کہتے ہیں تین مرتبہ ایسا ہوا۔ تیسری مرتبہ جب واپس ہونے لگے، تو اُنہوں نے اِن کو بلا کر کہا: ’’عبداللہ! تمہارے یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ تمہارے گھر کے درودیوار تمہاری رہنمائی کریں گے۔‘‘ چنانچہ اس کے بعد ان کا وہاں جانا ثابت نہیں۔ غزنی سے پنجاب قدرت نے فطرت انتہاء درجہ سلیم، ذہن نہایت رسا بخشا تھا۔ علوم ظاہری سے فارغ ہوئے، تو افغانستان کو انتہاء درجہ کی بدعات اور مشرکانہ رسوم میں مبتلا پایا۔ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے۔ علماء و مشائخِ وقت بلکہ حکام پر شدید نکتہ چینی شروع ہو گئی۔ حسبِ معمول مختلف قسم کی طعن و تشنیع کے ہدف بنے اور علماء و مشائخ کی مخالفت اس حد تک بڑھی کہ حکومت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔