کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 97
مولانا محمد حسین کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد مجمعے سے آواز یں بلند ہونے لگیں:اہلِ حدیث جیت گئے… وہابی جیت گئے… حنفی ہار گئے… وہابی مولوی کا حنفی مولوی مقابلہ نہ کرسکا … وہابی مولوی جیت گیا… حنفی مولوی ہار گیا… دیہات میں جمعہ پڑھنا فرض ہوگیا… نہ پڑھنے والا گناہ گار ہو گا… اس قسم کی آوازیں ہر طرف سے مسلسل آرہی تھیں اور زور زور سے آرہی تھیں۔ پھر لوگ مولانا احمد الدین گکھڑوی کی طرف دوڑے اور ان سے سلام و مصافحے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔بعض لوگ ان کے ہاتھ چومنے لگے۔بعض نے ان کا ماتھا بھی چوما۔ اس مناظرے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس علاقے کے تقریباً تمام دیہات میں باقاعدہ نمازِ جمعہ پڑھی جانے لگی اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے مسلک اہلِ حدیث اختیار کر لیا۔ مولانا محمد عباس جن کی کوشش سے یہ مناظرہ ہوا تھا، قیامِ پاکستان کے بعد پاک پتن آگئے تھے اور انھیں وہاں کی مسجد اہلِ حدیث کے خطیب و امام مقرر کرلیا گیا تھا۔محققانہ ذہن کے سلجھے ہوئے عالمِ دین تھے۔میرے زمانہ ادارت میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں بعض علمی موضوعات پر ان کے مضامین چھپتے رہے۔مجھے یاد پڑتاہے انھوں نے پاک پتن ہی میں وفات پائی۔پاکپتن میں تقسیمِ ملک سے کئی سال قبل اہلِ حدیث کی پہلی مسجد چودھری عبدالرحمن کی کوشش سے بنی تھی جو مولانا کرم الٰہی(ساکن قادر والا تحصیل زیرہ ضلع، فیروز پور)کے فرزند گرامی تھے اور پاکپتن کے گورنمنٹ ہائی سکول میں ہیڈماسٹر تھے۔قیام پاکستان کے بعد فوت ہوئے۔نہایت نیک گھرانے کے نیک فرد۔ معلوم نہیں یہ سطورمولانا محمد عباس کے اخلاف یا ان کے شاگردوں میں سے