کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 86
سے محروم ہو گئے تھے۔ان کے ماموں مولانا حنیف اللہ خاں سابق ریاست دِیر کے منصبِ قضا پر فائز تھے، مولانا شریف اللہ نے ان سے بعض درسی کتابیں پڑھیں اور انہی نے ان کی پرورش کی۔ 1906ء(1324ھ)کو مولانا شریف اللہ خاں رام پور کے مدرسہ عالیہ میں داخل ہوئے۔نوسال وہاں تعلیم حاصل کی اور سندِ فراغت لی۔رام پور میں انھوں نے جن اساتذہ سے استفادہ کیا، ان میں مولانا فضل حق رام پوری بھی شامل ہیں۔ رام پور سے وہ دارالعلوم دیوبند گئے۔وہاں مولانا محمود حسن صاحب سے شرفِ شاگردی حاصل کیا اوران سے تبرکاً دوبارہ صحیح بخاری پڑھی۔ تحصیل علم کے بعد رام پورکے مدرسہ ارشادالعلوم میں سلسلہء تدریس شروع کیا۔کچھ عرصہ وہاں رہے۔پھر لکھنؤ کے ایک مدرسے میں پڑھانے لگے۔پانچ سال وہاں خدمت سرانجام دی۔پھر دہلی آگئے اور مدرسہ عالیہ فتح پوری سے وابستگی اختیار کر لی۔کچھ عرصہ وہاں نائب مدرس کے طور کام کیا، پھر صدر مدرس بنا دیے گئے۔اس زمانے میں وہ مدرسہ رحمانیہ میں بھی طلبا کو بعض کتابوں کا درس دیتے تھے۔دہلی کے زمانہ قیام میں ان سے جن سیکڑوں علما و طلبا نے حصولِ فیض کیا، ان میں مولانا محمد جونا گڑھی دہلوی اور مولانا ابوالاعلی مودودی بھی شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے اور ان کی خدمات دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے لیے مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے حاصل کرلیں۔تقسیم ملک کے نتیجے میں یہ دارالعلوم امرتسر سے لاہور منتقل ہوگیا تھا۔کئی سال وہ اس دارالعلوم میں پڑھاتے رہے۔پھر 1955ء میں فیصل آباد میں جامعہ سلفیہ کا قیام عمل میں آیاتو ان سے جامعہ سلفیہ میں فریضہء درس دینے کی درخواست کی گئی جو انھوں نے منظور فرمائی اور وہ فیصل آباد تشریف لے گئے۔وہیں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ لاہور آگئے۔