کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 84
کرتے تھے۔ذہن ابتدا ہی سے مناظرانہ تھا۔اسلامی احکام کے سلسلے میں جس سے بات کرتے، پورے زور سے کتاب و سنت کی روشنی میں کرتے۔اس ضمن میں کسی قسم کا خوف یا کسی نوع کا لحاظ کبھی ان کے ذہن میں نہ آیا۔صدقِ مقال، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہمیشہ ان کا شیوہ رہا۔ ان کے استاذ مولانا سلطان احمد اس دور کے معاشرے اور اس نواح میں نہایت عزت کا مقام رکھتے تھے۔اپنے ہاتھ سے کما کر گزر اوقات کرتے تھے۔تدریس اور امامت و خطابت کا کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔وہ حضرت حافظ عبدالمنان وزیرآبادی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے اور استاذِ محترم کی تربیت کی بنا پر تمام عمربرسرِعام حق گوئی اور غلط امور کی تردید ان کا مرکزی نقطۂ فکر رہا۔نہایت افسوس ہے، ان کے تفصیلی حالات کا علم نہ ہوسکا۔ان کے اخلاف اور رشتے داروں میں سے یقینا کچھ لوگ موجود ہوں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے شاگردوں کی اولاد میں سے کچھ افراد زندہ ہوں۔اگر یہ لوگ اپنے عالم دین بزرگ اور مخلص ترین استاذ کے تھوڑے بہت حالات سے آگاہ ہوں تو اس کا تذکرہ جماعت اہلِ حدیث کے کسی اخبار میں ضرور کرنا چاہیے۔ مولانا احمد الدین ہمیشہ علم کی تلاش میں رہے۔قیام پاکستان کے بعد انھوں نے حضرت حافظ عبداللہ روپڑی اور مولانا شریف اللہ خاں سواتی رحمہ اللہ سے استفادہ کیا۔ اب آیندہ سطور میں ان کے ان اساتذہ کے مختصر حالات بیان کیے جاتے ہیں، جن کا ہمیں پتا چل سکا۔ 5۔مولانا علاء الدین: پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مولانااحمد الدین گکھڑوی کچھ عرصہ گوجراں والا میں مولانا علاء الدین کے حلقہء درس میں بھی رہے۔مولانا علاء الدین اصلاً بر ہمن چندر