کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 83
سردی، آندھی ہو یا بارش، کتابیں پکڑتے اور موضع نت کلاں کو روانہ ہوجاتے۔گکھڑ سے نت کلاں دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہ سفر وہ پیدل طے کرتے تھے۔علم کا یہ بے پناہ شوق تھا، جس کی وجہ سے انھیں گرمی، سردی، بارش، آندھی وغیرہ کا کوئی احساس نہ ہوتا تھا۔ مولانا سلطان احمد رحمہ اللہ کا کام بافندگی تھا۔وہ کھڈی میں بیٹھ کر کپڑا بنتے تھے۔اب یہ حضرات انصاری کہلاتے ہیں۔کھڈیوں میں بیٹھ کر کپڑا بنانے کا سلسلہ عرصہ ہوا ختم ہوگیا ہے۔ اس زمانے میں کھڈیوں پر کپڑا بنانے والے انصاری(یا بافندے)گلی میں تانا بانا لگایا کرتے تھے۔اس کا طریقہ یہ تھا کہ دونوں طرف زمین میں کیل ٹھوک لیتے۔ایک طرف کا فاصلہ تقریباً دو سو گز کا ہوتا تھا۔ان کے ہاتھوں میں لکڑی کی باریک سی سوئیاں ہوتی تھیں، جن کے سروں پر سوت کے نڑے ہوتے تھے۔وہ تانا بنتے تو دونوں طرف آنے جانے کا فاصلہ چار سو گز کے لگ بھگ ہوجاتا تھا۔اس طرح چلتے چلتے وہ مولانا احمد الدین کو پڑھاتے تھے۔شاگرد بھی ان کے ساتھ ساتھ چلتے اور سبق پڑھتے۔استاد اگر کام سے فارغ ہوتے تو مسجد میں بیٹھ کر پڑھاتے۔وہ طالب علم کی پڑھائی کا پورا خیال رکھتے تھے۔اس کا وقت ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ مولانا احمد الدین پندرہ سولہ سال کے تھے کہ ان کے والد گرامی حاجی اللہ دتا وفات پاگئے۔یہ بہت بڑا صدمہ تھا جو انھیں برداشت کرنا پڑا۔باپ کے بڑے بیٹے ہونے کی وجہ سے ان پر گھر کی ذمہ داریاں بھی آپڑی تھیں۔لیکن انھوں نے ان غم ناک اور تکلیف دِہ حالات میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ تعلیم کے دوران ہی میں مولانا احمد الدین کو وعظ و تقریر کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔وہ بدعات اور غیر اسلامی رسوم و رواج کے سخت خلاف تھے اور ان پر کھل کر تنقید