کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 76
آہن گری وہ کام ہے، جس کا خود قرآن نے ذکر کیا ہے۔حضرت داؤد آہن گر تھے اور اللہ کے برگزیدہ پیغمبر۔! قرآن مجید میں ان کی اس صنعت کا خاص طور پرذکر فرمایاگیا ہے اور ارشاد ہے: ﴿وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَ﴾[سبا: ۱۰] ’’اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کردیا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا: ﴿اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ﴾[سبا: ۱۱] یعنی لوہے کی زرہیں اس انداز سے بناؤ کہ پہننے والے کے جسم پر پوری آئیں اور ان کی کڑیاں بالکل درست ہوں، چھوٹی بڑی نہ ہوں، پہننے والے کو اس میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ لوہے کی زرہیں زمانہ جنگ میں اور خطرے کے موقعے پر دشمن سے بچاؤ کے لیے پہنی جاتی تھیں۔حضرت داؤد کا ایجاد کردہ یہ سلسلہ اب بھی چلتا ہے۔ قرآن کی رو سے کہنا چاہیے کہ مولانا احمد الدین گکھڑوی کے اسلاف، ان کے خاندان کے افراد اور خود ان کا پیشہ حالات کی رفتار کے مطابق پیغمبرانہ پیشہ تھا۔اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پیشے کے اعتبار سے ان کا خاندان حضرت داؤد سے تعلق رکھتا ہے اور یہ لوگ انہی کی آل اولاد ہیں جو کسی زمانے میں برصغیر میں آبسے! غرض جن لوگوں کو آج برصغیر کی بولی میں لوہار اور عربی زبان میں حداد کہا جاتا ہے، وہ معمولی حیثیت کے لوگ نہیں ہیں۔ان کا مرتبہ ان کے کام اور پیشے کے اعتبار سے بہت بڑا ہے۔یہ لوگ بے حدمشقت کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں جو اور کوئی نہیں کرسکتا۔لوگ اس کام کے لیے ان کے محتاج ہیں۔اس پیشے سے مسلمان بھی بہت بڑی تعداد میں منسلک ہیں اور غیر مسلم بھی!