کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 68
طرح دنیا میں زندہ تھے اور دنیا کی ہر چیز دیکھتے اور لوگوں کی باتیں سنتے ہیں۔دوسرا گروہ اس سے اختلاف کرتا تھا۔ان کا موقف یہ تھا کہ نبی وفات پاگئے ہیں۔آپ نہ کسی کو دیکھتے ہیں، نہ کسی کی بات سنتے ہیں۔پہلے گروہ کو ’’حیاتی‘‘ اور دوسرے کو ’’مماتی‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ نزاع بہت شدت اختیار کر گیا تھا،جسے ختم کرانے اور دونوں دھڑوں میں صلح کرانے کے لیے 1962ء میں دیوبند سے قاری محمد طیب صاحب تشریف لائے۔ان حضرات کا اجتماع راولپنڈی میں ہوا اور وہیں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے قاضی نور محمد اچانک وفات پاگئے۔پھر ان کی میت قلعہ دیدار سنگھ لائی گئی اور وہاں دفن کیے گئے۔جنازہ سید عنایت اللہ شاہ بخاری(ساکن گجرات)نے پڑھایا۔ 17۔مولانا محمدسرفراز خاں صفدر: ان کا مقام ولادت موضع ڈھکی چڑاں ضلع(مانسہرہ)ہے اور سالِ ولادت ہے 1914ء۔! مختلف مقامات کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔دارالعلوم دیوبند اور اکوڑہ خٹک میں بھی تحصیل علم کرتے رہے۔فراغت کے بعد گوجراں والا میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔گکھڑ کی ایک مسجد کا منصبِ خطابت بھی طویل عرصے تک ان کے سپرد رہا۔بہت سی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ کچھ عرصہ پیشتر مجھے ایک مشہور صاحبِ قلم عالم میاں محمد الیاس صاحب نے اپنی ایک کتاب ارسال فرمائی تھی، جس کا نام ہے ’’مولانا حسین علی‘‘۔اس کتاب کے صفحہ 353 سے صفحہ 355 تک(تین صفحات میں)مولانا سرفراز خاں صفدر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔فاضل مصنف نے مولانا ممدوح کی تصنیفی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ان کے نزدیک ’’مولانا کی 1960ء سے پہلے کی تصانیف مولانا