کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 67
اپنے علاقے کے علماے کرام سے تعلیم پائی۔مولانا حسین علی(ساکن واں بھچراں)سے بھی مستفید ہوئے۔حدیث کا دورہ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا شبیر احمد عثمانی سے کیا۔مروجہ علوم سے فراغت کے بعد مختلف مقامات میں فریضہء درس سرانجام دیتے رہے۔پھر گوجراں والا تشریف لائے۔یہاں بعض مدارس میں تدریس کی۔1958ء میں دیوبندی علما کے درمیان مسئلہ حیات النبی پر اختلاف نے شدت اختیار کی اور یہ حضرات دو گروہوں میں بٹ گئے تو قاضی صاحب موصوف نے جامعہ صدیقیہ کے نام سے ایک نئے مدرسے کی بنیاد رکھی۔ان سے بہت لوگوں نے کسبِ فیض کیا۔تدریس کے علاوہ تصنیفی خدمات بھی سرانجام دیں۔21مئی1985 ء(11رمضان1405 ھ)کو گوجراں والا میں رحلت فرمائی۔ 16۔قاضی نور محمد: یہ عالمِ دین قاضی شمس الدین کے(جن کا ابھی تذکرہ ہوا)بڑے بھائی تھے جو 1896ء(1314ھ)کو موضع پڑی(تحصیل پنڈی گھیپ ضلع اٹک)میں پیداہوئے۔اعوان برادری سے تعلق تھا۔درسِ نظامی کی تمام کتابیں ایک بزرگ مولانا غلام رسول معروف ’’انھی والے بابا‘‘ سے پڑھیں۔پھر مولانا حسین علی(واں بھچراں)سے حدیث اور ترجمہ و تفسیرِ قرآن کی تکمیل کی۔دورہ حدیث مولانا انور شاہ کشمیری سے جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں پڑھا۔عملی زندگی کا آغاز تدریس سے کیا۔ضلع گوجراں والا کے قصبہ قلعہ دیدار سنگھ میں سکونت اختیار کی۔تصنیف و تالیف اور وعظ و تبلیغ سے بھی تعلق تھا۔ موت کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔1958ء میں دیو بندی علما میں مسئلہ حیات النبی سے متعلق شدید نزاع پیدا ہوگیا تھا اور وہ دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ نبی اپنی قبر مبارک میں اسی طرح زندہ ہیں، جس