کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 64
خدمات سرانجام دیں، ان کا احاطہ کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔تدریس کے علاوہ ان کی تصنیفی مساعی کا دائرہ بھی بڑا پھیلا ہوا ہے۔یہاں اس کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں، صرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ان کے شاگردوں اور پھر آگے ان کے شاگردوں کے شاگردوں کا جو سلسلہ چلتا ہے، اسے ریاضیاتی گنتی میں لانا حدِ امکان سے باہر ہے۔تقویٰ و تدین میں بھی وہ عالی مرتبے پر فائز تھے۔حضرت حافظ صاحب نے 4جون 1985ء(14رمضان المبارک 1405ھ)کو وفات پائی۔ 11۔مولانا محمد اسماعیل سلفی: اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے اربابِ علم کی لائق اکرام جماعت میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کا اسمِ گرامی شامل ہے جو ہمارے ملک کے رفیع المنزلت عالمِ دین تھے۔تحریر و تقریر اور درس وتدریس میں یکساں عبور رکھتے تھے۔مولانا ممدوح 1897ء(1314ھ)کے پس و پیش ضلع گوجراں والاکی تحصیل وزیر آباد کے ایک گاؤں ڈھونیکے میں پیدا ہوئے۔والد کا اسمِ گرامی مولانا محمد ابراہیم تھا جو اپنے عہد کے ممتاز خطاط تھے۔حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کی تصنیف تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی کی کتابت انہی مولانا محمد ابراہیم نے کی تھی۔نہایت صالح اور صاحبِ تقویٰ بزرگ تھے۔اپنے فرزندِ دلبند مولانا محمد اسماعیل کو ابتدائی تعلیم خود انہی نے دی۔کچھ بڑے ہوئے تو وزیرآباد میں حضرت حافظ عبدالمنان صاحب کی خدمت میں بھیج دیے گئے۔کچھ عرصہ ان سے استفادہ کرتے رہے۔بعد ازاں مختلف علماے کرام سے کسبِ علم کیا۔فراغت کے بعد 1921ء میں گوجراں والا تشریف لائے اور پھر خطابت و تدریس کے سلسلے میں بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ان کے فیض یافتگان کا حلقہ بے حد وسیع ہے۔20فروری 1968 ء(20ذیقعدہ 1387 ھ)کو ان کاانتقال ہوا۔