کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 54
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اسی شہر کے باشندے تھے، جنھوں نے اپنی خدمات دینی کے لحاظ سے پورے برصغیر میں شہرت پائی۔وہ بہت بڑے مصنف اور بہت بڑے مفسر تھے۔اسی(80)سے زائد کتابیں ان کی تصانیف میں شامل ہیں اور یہ بے حد تحقیقی کتابیں ہیں۔یہ فقیر پہلا شخص ہے، جسے ان کے حالاتِ زندگی لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔(ملاحظہ ہو قافلہ حدیث صفحہ: 78 تا123) اسی علاقے سے حضرت مولانا محمد ابوالحسن کا تعلق تھا۔ان کی تصنیف فیض الباری شرح اردو صحیح بخاری دس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جو ہزاروں صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔صحیح بخاری کی اس اردو شرح میں فاضل مصنف نے فتح الباری، عمدۃ القاری، ارشاد الساری، کواکب الدراری، تیسیرالقاری، منح الباری اور حاشیہء سندھی کا انتخاب جمع فرما دیا ہے اور اپنے موضوع کی یہ نہایت اہم کتاب قرار پاگئی ہے۔مولانا محمد ابو الحسن سیالکوٹی کو حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ مولانا ہدایت اللہ نوشہروی بھی ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں ’’نوشہرہ ککّے زیاں ‘‘کے رہنے والے تھے۔انھوں نے حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی اور حضرت سید عبداللہ غزنوی سے حصولِ فیض کیا۔اس عالم دین نے قرآن مجید کا پنجابی زبان میں ترجمہ کیا۔ شہیدِ ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کا مولد بھی یہی شہر تھا۔اس مردِ مجاہد نے اپنی بلند آہنگ خطابت اور عربی و اُردو تصانیف کی بنا پر پوری اسلامی دنیا میں شہرت پائی۔ مولانا محمد علی جانباز مرحوم و مغفور نے بھی اسی شہر میں سکونت اختیار کر لی تھی۔وہاں انھوں نے جامعہ رحمانیہ کے نام سے دارالعلوم جاری کیا جو اب بھی کامیابی سے جاری ہے۔ان کا بہت بڑا تصنیفی کارنامہ سنن ابن ماجہ کی شرح انجاز الحاجہ ہے جو عربی زبان میں