کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 53
نشوو نما ہوئی، وہ تھے غزنوی علماے کرام، مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا رحیم بخش(مصنفِ اسلام کی کتاب پہلا حصہ تا چودھواں حصہ)ان کے علاوہ اس وقت کے ضلع لاہور کی تحصیل چونیاں میں بالخصوص لکھوی علما نے بے حد خدمات سرانجام دیں اور اس نواح کے لوگ ان سے بہت متاثر ہوئے۔اس تاثر کے آثار اب بھی اس علاقے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس دینی تاثر نے سیاسی تاثر کی شکل بھی اختیار کی، چنانچہ 1951ء کے انتخابات میں یہاں سے مولانا سید محمدداؤد غزنوی اور مولانا محی الدین لکھوی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب کیے گئے۔اس کے بعد تین مرتبہ انہی حلقوں سے قومی اسمبلی کے لیے مولانا معین الدین لکھوی کا انتخاب عمل میں آیا۔ ملتان میں بھی کم وبیش دو سوسال قبل علماے حدیث کا وردو ہوا۔ابتدا میں انھیں بڑی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔پھر آہستہ آہستہ حالات کا رخ بدل گیا اور تقسیم ملک تک اس شہر اور ضلعے کے مختلف مقامات میں عاملینِ کتاب و سنت کی تعداد میں اللہ کے فضل سے بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ سیالکوٹ شہر اور ضلعے میں تقسیم ملک سے بہت پیشتر سے قرآن وحدیث کے متبعین ومبلغین کا ایک مضبوط گروہ موجود تھا۔اس علاقے میں علماے حدیث کی صداے حق بھی توانا تھی اور لوگ ان کی تدریسی اور تصنیفی کوششوں کے معترف بھی تھے اور ان سے بہ درجہء غایت متاثر بھی تھے۔مولانا غلام حسن سیالکوٹی، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور بعض دیگر بزرگانِ گرامی کے مواعظِ حسنہ کا ان اطراف کے باشندوں پر بڑا اثر تھا جو اب تک قائم ہے اور لوگ ان کی مساعی کا بڑی مسرت سے تذکرہ کرتے ہیں۔وہ لوگ تاریخِ عاملینِ حدیث کا ایک نہایت موثر حصہ تھے۔