کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 51
تم تحریرحواشي ھذا الکتاب یوم الخمیس السادس والعشرین من ذی الحجۃ سنۃ 1272ھ بید أضعف عباد اللّٰه محمد بن مخدومي بارک اللّٰه۔ یعنی ان حواشی کی تحریر کا سلسلہ جمعرات کے روز 26 ذی الحجہ 1272ھ کو اللہ کے کم زور ترین بندے محمد بن مخدومی بارک اللہ کے ہاتھ سے اختتام کو پہنچا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ محمد لکھوی کے لکھنے کی رفتار بھی تیز تھی کہ صرف دو سال(1271ھ اور 1272ھ)میں ابوداؤد اور مشکاۃ کے حواشی مکمل کردیے اور ان کی تصنیفات کو اہلِ علم میں اتنی مقبولیت بھی حاصل تھی کہ فوراً چھپ بھی گئیں۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب کے بعض اضلاع میں بہت سے علماے دین موجود تھے اور ان کی خدماتِ دینی کے دائرے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ان میں ایک ضلع فیروز پور تھا، جس کی اس وقت پانچ تحصیلیں تھیں : 1۔ تحصیل فیروز پور 2۔ تحصیل فاضل کا 3۔ تحصیل زیرہ 4۔ تحصیل مکتسر 5۔ تحصیل موگا ان پانچوں تحصیلوں کے مختلف مقامات میں علماے کرام بہت بڑی تعداد میں سکونت پذیر تھے۔ قیام پاکستان کے زمانے میں پنجاب کی جو کتر بیونت ہوئی، اس کے نتیجے میں ضلع امرتسر بھی ہندوستان کے حوالے کردیا گیا۔امرتسر شہر کے پہلے اہلِ حدیث عالم مولانا غلام العلی قصوری تھے، جنھوں نے اپنا قصور شہر کا ملکیتی مکان فروخت کر کے امرتسر میں زمین خریدی اور اس میں مسجد تعمیر کرائی۔مسجد میں مدرسہ بھی جاری فرمایا، جس میں مولانا ثناء اللہ امرتسری نے تحصیلِ علم کا آغاز کیا۔