کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 44
نزدیک وہ بہ یک وقت دونوں شہروں میں مقیم ہے یعنی اس کا قیام ’’مکہ مدینہ‘‘ میں ہے۔اب تو لوگوں کی معلومات کا سلسلہ بہت بدل گیاہے، ورنہ کچھ عرصہ پہلے ہر عرب ملک کو ’’مکہ مدینہ‘‘ کہا جاتاتھا، بلکہ یہ بھی تھا کہ جس شخص کو عربی بولتے ہوئے دیکھا، فوراً کہہ دیا یہ مکے مدینے رہتا ہے ....’’مکہ مدینہ‘‘ میں قیام کے ساتھ ساتھ عبدالرحمن طالب علم بھی ہے اور حافظِ قرآن بھی! طالب علم اور حافظ قرآن کی شریعت میں بڑی فضلیت بیان فرمائی گئی ہے، اس لیے، اس کے سامنے حرفِ انکار مشکل ہوگیا، چنانچہ ہم نے ان باپ بیٹے کے فرمان پر کشکول پکڑا اور مولانا احمد الدین گکھڑوی کے حالات کا کھوج لگانے اور انھیں قلم بند کرنے کے لیے ہر اس دروازے پر پہنچے جہاں سے کچھ خیر خیرات ملنے کی توقع تھی۔ اس سلسلے میں پہلا کام یہ کیا کہ اخبار ’’الاعتصام‘‘ کے مینجرجناب محمد سلیم چنیوٹی کے نام سے اخباروں میں اعلان کرایا گیا کہ جو صاحبان مولانا احمد الدین گکھڑوی کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہوں، وہ ان معلومات سے مطلع فرمائیں۔جیسا کہ گزشتہ صفحات میں کسی جگہ بتایا گیا۔میں نے بعض قابلِ احترام دوستوں کو ٹیلی فون بھی کیے اور بالمشافہ بھی بات کی۔میرا خیال یہ تھا کہ سوصفحات بلکہ حشو و زواید سے پاک اسی(80)صفحات کا مواد بھی مل جائے تو غنیمت ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا کہ دوستوں کے مخلصانہ تعاون سے اس مردِ درویش کے متعلق پونے تین سو صفحات سے بھی زیادہ صفحات کا مواد جمع ہوگیا، جسے مختلف ابواب میں تقسیم کر کے خوانندگانِ محترم کی خدمت میں پیش کیا جارہاہے۔الحمد للّٰه علیٰ ذلک۔ اسے مولانا احمد الدین کی کرامت قرار دیجیے یا مولانا عارف جاوید محمدی کے اخلاص سے تعبیر کیجیے یا ہم گناہ گاروں کی کوشش کا نتیجہ کہیے، جو مرضی اس کا نام رکھیے،