کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 43
’’ہم نے تو آباد گھر دیکھ کر روٹی کے ایک ٹکڑے کا سوال کیا تھا، لیکن یہاں کچھ اور ہی قسم کے جھگڑے جھمیلے ہو رہے ہیں۔‘‘ ہمارے ساتھ کبھی اس قسم کا معاملہ تو نہیں ہوا، اس لیے کہ نہ ہم رانجھا تھے اور نہ کبھی کسی سہتی سے واسطہ پڑا۔اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ جس دروازے پر دستک دی اور صدا لگائی، کوئی نہ کوئی سخی ضرور مل گیا اور کشکول اگر بھرا نہیں تو اللہ کی مہربانی سے خالی بھی نہیں لوٹایا گیا، لیکن جب مانگنے کو پیشہ ہی بنا لیا جائے، اپنی کوئی چیزبھی نہ ہو اور مانگنے پر ہی گزارا ہو تو جواب میں انکار کا اندیشہ تو بہرحال رہتا ہے۔ یہاں یہ عرض کر دوں کہ مولانا عارف جاوید محمدی یوں تو ایک مدت سے مولانا احمد الدین گکھڑوی کے سوانح حیات لکھنے کے لیے کہہ رہے تھے اور میں معذرت کررہا تھا، لیکن جب انھوں نے زور دے کر فیصلہ کن انداز میں کہا تو بڑی پریشانی ہوئی، اس لیے کہ ان کے متعلق لکھنے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، صرف تین چار چھوٹے چھوٹے واقعات تھے جو قیامِ پاکستان سے بہت پیشتر سے ذہن کے کسی گوشے میں اٹکے ہوئے تھے۔یہ واقعات زیادہ سے زیادہ بیس صفحات کے ہوں گے۔میں نے یہ مجبوری انھیں بتائی، لیکن انھوں نے میری اس مجبوری کو قابلِ پذیرائی نہیں گردانا۔اس کے بعد ان کے صاحب زادے حافظ عبدالرحمن کویت سے آئے۔انھوں نے اپنے والدِ گرامی کا پیغام بھی دیا اور برخوردانہ لہجے میں اپنی طرف سے بھی کہا کہ یہ کام ضرور ہونا چاہیے۔ مولانا عارف جاوید محمدی سے تو میں شاید پھر بھی کسی نہ کسی طرح دامن چھڑا لیتا، لیکن اس بچے کو جواب دینا مشکل ہوگیا۔بچہ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتا ہے، یعنی ہم دیہاتیوں کی بولی میں ’’مکے مدینے‘‘ رہتا ہے۔ہم ان دونوں مقدس تریں شہروں کا اسی طرح تلفظ کیا کرتے ہیں۔کوئی مکے میں رہتا ہو یا مدینے میں، ہمارے