کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 42
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس کتاب کی تکمیل میں دوستوں نے میری مدد تو کی، جس سے مانگا، اس نے انکار نہیں کیا، کچھ نہ کچھ دے دیا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ مانگنا بہت مشکل ہے۔گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹانا بڑے دل گردے کا کام ہے۔بعض لوگوں کے بارے میں یہ حسنِ ظن ہوتا ہے کہ وہ بڑے سخی ہیں، جاتے ہی کشکول بھر دیں گے، لیکن وہاں سے صاف جواب ملتا ہے۔بعض لوگ جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں کہ اب آگئے ہو۔اس سے پہلے اس طرف کیوں توجہ نہیں کی۔ان کے ہاں سے بجز ڈانٹ ڈپٹ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔مگر مانگنے والا بھی ڈھیٹ ہوتا ہے، صاف جواب کے باوجود وہیں کھڑا رہتا ہے اور دعا کرتا ہے، جو دے اس کا بھی بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ اگر قارئینِ کرام کا ذوقِ تدین مجروح نہ ہو اور وہ تھوڑا سا خوش دلی کا مظاہرہ فرمائیں تو یہ عرض کرنے کی جسارت کروں کہ مانگنے والے کا معاملہ بسا اوقات رانجھے کا سا ہوتا ہے۔ہیر کو جب کھیڑے جھنگ سے بیاہ کر رنگ پور کھیڑیاں لے گئے تو اس کا عاشق دھیدو(رانجھا)جوگیوں کی سی شکل بنا کر اور انہی کا سابھیس بدل کر ہیر سے ملنے کے لیے رنگ پور کھیڑیاں پہنچا۔گاؤں کے باہر ڈیرا لگا یا اور دھونی رمائی۔پھر کشکول پکڑا جسے پنجابی میں ’’ٹھوٹھا‘‘ کہا جاتا ہے اور بھیک مانگنے کے لیے رنگ پور کھیڑیاں(گاؤں)میں داخل ہوا۔مانگتے مانگتے ہیر کے سسرال کے دروازے پر جا صدا لگائی۔اسے دراصل جانا بھی وہیں تھا۔ اندر ہیر کی نند سہتی بیٹھی تھی۔وہ بڑی اکھڑ مزاج عورت تھی۔اس نے صدا لگانے والے جوگی(رانجھے)کو سخت الفاظ میں ڈانٹا تو وارث شاہ کے بقول رانجھے نے کہا ؎ گھر وسدا ویکھ سوال کیتا ایتھے ہور ای گھسور مسوریے جی