کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 41
سے لکھنے کی کوشش کرتا اور ان کے احوالِ زندگی جمع کرنے کے لیے مجھے زیادہ دوستوں کو زحمت دینے کی ضرورت نہ پڑتی، لیکن اب اس قسم کی باتیں کرنے یا باتیں بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔یہ بعد از مرگ واویلا ہے۔بلاشبہہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔جب مقررہ وقت آجاتا ہے توکام ہو جاتاہے۔اس کام کا بھی وقت مقرر تھا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے توقع سے کہیں زیادہ ہوگیا ؎ شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم اس کتاب کے لیے معلومات حاصل کرنے کی غرض سے متعدد دوستوں سے رابطہ قائم کیا گیا۔ان دوستوں نے مہربانی فرمائی اور معلومات بہم پہنچائیں۔بعض معلومات میں قدرے تکرار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، لیکن یہ تکرار فائدے سے خالی نہیں، اس لیے کہ دو تین مقامات میں جہاں تکرار کا احساس ہوتا ہے، وہاں معلومات میں کمی بیشی بھی پائی جاتی ہے۔یعنی کوئی واقعہ ایک جگہ اختصار سے بیان ہوا ہے اور دوسری جگہ اسی واقعہ کی تفصیل آگئی ہے، اس لیے اسے ایسی تکرار نہیں کہا جاسکتا جس سے قاری کے ذہن میں تکدر پیدا ہوتا ہو، بلکہ اسے ایک سے زائد راویوں کا بیان کردہ واقعہ قرار دیا جائے گا، کسی نے کم الفاظ میں بیان کر دیا، کسی نے زیادہ الفاظ میں ! راویوں کا زیادہ ہونا واقعہ کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔لطیفے کے طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم لوگ قرآن و حدیث پر عمل کے دعوے دار ہیں اور قرآن و حدیث میں بہت سے واقعات بہ تکرار بیان فرمائے گئے ہیں اور ہر تکرار میں موقع و محل کے مطابق ایسا خوب صورت اور دل نشین انداز اختیار فرمایا گیا ہے کہ پڑھنے والا اس سے بے حد محظوظ ہوتا ہے اور نئے سے نئے مسائل سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ہماری تکرار میں وہ بات تو ہر گز نہیں آسکتی، لیکن تکرار کے جواز کا ثبوت مل جاتاہے۔