کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 40
رہے تھے اور بھتیجے خود مزدوری کرکے زندگی گزارتے تھے، ظاہر ہے وہ ان کی زیادہ خدمت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔تاہم جو کچھ ان سے ہو سکا، وہ فراخ دلی سے کرتے رہے۔سوال یہ ہے کہ اپنے جلسوں میں ان سے تقریریں اور مناظرے کرانے والے اس وقت کہاں تھے؟ مولانا محمد سلیمان انصاری نے لکھا ہے کہ میں ان کی خدمت میں گیا اور چند باتیں کیں۔لیکن ان کے کوائف حیات تو ان کے ہم عصر حضرات ہی لکھ سکتے ہیں اور وہی لکھیں گے۔مولانا سلیمان انصاری کی یہ بات بالکل صحیح ہے، مگر ان کے ہم عصر و ہم سفر، ہم تقریر و ہم مناظر اور ہم کلام وہم مذاق حضرات میں سے ان کے متعلق کسی نے کچھ نہیں لکھا۔وہ سب حضرات وفات پا چکے ہیں۔اب اس بے اعتنائی کا شکوہ کس سے کیا جائے؟ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مولانا احمد الدین گکھڑوی سے میرا زیادہ تعلق نہ تھا۔اسے میری دوں ہمتی سمجھیے یا بد نصیبی سے تعبیر کیجیے کہ میں خاص عزم کے ساتھ کبھی ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا۔نہ کبھی استفادے کے لیے ان کی مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ان کی تقریریں بھی زیادہ نہیں سن سکا۔تقسیم ملک سے کئی سال پہلے ان کے دو مناظرے ضرور سنے، جن میں سے ایک مناظرے کا ذکر زیرِ مطالعہ کتاب کے چھٹے اور دوسرے کا دسویں باب میں کیا گیا ہے، لیکن تقسیمِ ملک سے پہلے یا اس کے بعد جس طرح بہت سے اہلِ حدیث اور غیر اہلِ حدیث علماے کرام سے میرا میل ملاقات کا سلسلہ رہا، اس طرح مولاناممدوح سے نہیں رہا۔اس کا ان کی زندگی میں تو احساس نہیں ہوا، البتہ اب ہورہا ہے اور بہت ہورہا ہے۔اگر مجھے ان کی مجلسوں میں حاضری کے مواقع میسر آئے ہوتے تو میں ان کے متعلق کچھ دوسرے انداز