کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 39
زیادہ مواقع عطا فرمائے اور عمل و اخلاص کی نعمت سے نوازے۔ یہ فقیر ان تمام حضرات کا بے حد شکرگزار ہے۔اللہ تعالیٰ انھیں جزاے خیر عطا فرمائے۔ یہاں ایک اور عرض کرنا چاہتاہوں، وہ یہ کہ مولانا احمد الدین گکھڑوی اور بہت سے دیگر علماے کرام نے اپنے اپنے انداز میں جماعت اہلِ حدیث اور مسلک اہلِ حدیث کی بے حد خدمت کی اور اسی خدمت میں عمر گزار دی، لیکن ان کی زندگی کے آخری دور میں جماعت کے کسی گروہ نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی کہ وہ کس حال میں ہیں، نہ کسی نے ان کے ایامِ مرض میں پتا کیا کہ ان کی مالی اور معاشی حالت کیسی ہے اور مسلک وجماعت کے یہ عمر بھر کے ہمہ وقتی خادم کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔اکثر اکابرِ جماعت نے تو کبھی ان کی عیادت کی ضرورت بھی محسوس نہ فرمائی۔ وہ نہایت خود دار اہلِ علم تھے۔انھوں نے نہ کسی کو کبھی اپنی کسی ضرورت کے متعلق کچھ کہا،نہ کسی کے سامنے کبھی ایسا انداز اختیار کیا، جس سے ان کی کسی احتیاج کی طرف کسی قسم کے اشارے کا شبہ پڑ سکتا ہو۔ ان کے آخری ایامِ مرض میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کے یکے بعد دیگرے دو اصحابِ علم نے ان سے ملاقات کی۔پہلے مولانا ارشاد الحق اثری نے(جیسا کہ اس کتاب کے باب نمبر اٹھارہ میں بتایا گیا ہے)اس سے کچھ دن بعد مولانا محمد سلیمان انصاری مرحوم نے ان کی خدمت میں حاضری دی، جس کی ضروری تفصیل کا قارئینِ کرام کو کتاب کے آخر میں پتا چلے گا۔ان ملاقاتوں کے مطالعے سے ہمیں مولانا مرحوم کے ہر قسم کے حالات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ان کی مریضانہ حالت کا بھی پتاچل جاتا ہے اور معاشی حالت کا بھی علم ہو جاتا ہے۔وہ اپنے بھتیجوں کے ساتھ رہ