کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 37
کے والد مکرم حاجی عبدالرحمن مرحوم علماے کرام سے بے حد عقیدت سے پیش آتے تھے۔تقسیم ملک سے قبل ان کا تعلقِ سکونت قصبہ پٹی(ضلع لاہور)سے تھا۔تقسیم کے نتیجے میں یہ قصبہ ضلع امرتسر(مشرقی پنجاب ہندوستان)میں شامل ہوا۔حاجی عبدالرحمن اپنے اہل و عیال سمیت پٹی سے فیصل آباد آگئے۔پٹی میں بھی یہ اہلِ علم کو ذاتی مہمان قرار دے کر اپنے گھر ٹھہراتے تھے۔فیصل آباد میں بھی ان کا یہی معمول رہا۔مجھے اور مولانا محمد حنیف ندوی کو بھی وہ ایک مرتبہ اپنی دکان پر لے گئے تھے اور ہماری مہمان نوازی کی تھی۔مولانا احمدالدین کا قیام اکثر ان کے گھر پر ہوتا تھا۔میری درخواست پرمولانا کا تذکرہ حاجی صاحب مرحوم کے عالمِ دین فرزند مولانا محمد یوسف انور نے خاصی تفصیل سے کیا ہے۔مولانا محمد یوسف انور سے میرے دوستانہ مراسم طویل مدت سے قائم ہیں۔میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری درخواست کو شرفِ قبول بخشا اور مولانا احمد الدین گکھڑوی سے متعلق بعض اہم باتوں سے آگاہ فرمایا۔ان کی تحریر میں کچھ تبدیلی کرکے اسے کتاب کا الگ سے(سترھواں)باب بنا دیا گیا ہے۔ حافظ ریاض احمد عاقب(مدرس مرکز ابن القاسم الاسلامی ملتان)نے مولانا گکھڑوی کی عربی زبان کی ایک تقریظ بذریعہ ڈاک بجھوائی جو انھوں نے کسی زمانے میں حضرت سید بدیع الدین شاہ راشدی کی عربی کتاب ’’المرآۃ لطرق حدیث من کان لہ إمام فقرأۃ الامام لہ قرأۃ‘‘ پر تحریر فرمائی تھی۔یہ کتاب ابھی تک چھپی نہیں۔ مولانا ارشاد الحق اثری کا شمار میرے بے تکلف عزیز دوستوں میں ہوتا ہے۔وہ جماعت اہلِ حدیث کے نامور محقق ہیں۔بہت سی عربی اور اردو کتابوں کے مرتب و مصنف۔انھوں نے مولانا احمد الدین صاحب کے چند واقعات لکھ کر بھجوائے جنھیں کتاب کا ایک مستقل(اٹھارھواں)باب بنا دیا گیا ہے۔