کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 35
تہ خانے سے نکال کر کاغذپر مرتسم کروں، اور بحمد اللہ حتی الامکان میں یہ کام کرتا رہتا ہوں اور مجھے کرنا بھی چاہیے۔ میں ہر گز یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں سب کچھ جانتا ہوں اور کسی بزرگ کے بارے میں جو واقعات بیان کرتا ہوں، وہ سب واقعات مجھے حفظ ہیں۔میں بھی کسی صاحب کے متعلق کچھ لکھتا ہوں تو بسا اوقات مختلف اہلِ علم سے روابط قائم کرتا ہوں اور پوچھ پوچھ کر اور بچ بچ کر اپنی دانست میں احتیاط سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔کہیں غلطی بھی ہوجاتی ہے جو انسانی فطرت کا خاصہ، بلکہ تقاضا ہے۔ مولانا احمدالدین گکھڑوی کے متعلق بھی جو کچھ لکھاگیا ہے، بہت سے دروازوں پر دستک دے دے کر لکھا گیا ہے اور یہ بھی ہمارے عزیز القدر دوست مولانا عارف جاوید محمدی(مقیم کویت)کی سعیِ پرُ خلوص کا نتیجہ ہے۔ان کی بار بار کی تاکید سے کچھ مواد جمع ہوگیا، جسے کتابی ’’شکل‘‘ دے دی گئی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس شکل میں کچھ جان بھی ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کی نبض اب لائقِ احترام قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔وہی فیصلہ کریں گے کہ اس میں تھوڑی یا بہت جان ہے یا نہیں ہے۔ مولانا عارف جاوید محمدی کے بارے میں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرحومین و موجودین علماے کرام سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ان کے واقعاتِ زندگی سے انھیں خاص دلچسپی ہے۔یہ کتاب جیسی بھی ہے، ان کی عقیدت و محبت اور دلچسپی کی و جہ سے ہی معرضِ کتابت میں آئی ہے۔ اس کا مواد جمع کرنے میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے مینجر جناب محمد سلیم چینوٹی کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔انھوں نے اخبار میں بھی بار بار اعلان کیا اور لاہور سے باہر جا کر بھی بعض حضرات سے ملاقات کی۔جو کچھ کسی دوست سے ملا، کاغذ