کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 34
مولانا محمد ابراہیم خادم، مولانا علی محمد صمصام اور مولانا حافظ اسماعیل روپڑی کے بارے میں بھی کسی صاحب کا کوئی قابلِ ذکر مضمون نہیں چھپا۔اور بھی بہت لوگ ہیں، جن کی شخصیت سے ہم با خبر ہیں، لیکن ان کے حالات سے بے خبر۔ مولانا احمد الدین کی تو کوئی اولاد بھی نہ تھی اور ان کے قریبی رشتے داروں میں بھی کوئی شخص ایسی صلاحیت کا مالک نہ تھا جو ان کی زندگی میں یا ان کے بعد ان کے حالات قلم بند کرتا، جن علماے ذی مرتبت کے اخلاف کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل کی نعمتِ بے بہا سے نوازا ہے اور وہ قلم و قرطاس کے فن سے بھی آگاہ ہیں، وہ بھی اپنے آبا و اجداد کے حالات لکھنے میں متامّل ہیں۔میں اس باب میں کسی اہلِ علم کو مطعون نہیں ٹھہراتا۔نہ میرا یہ مطلب ہے کہ ان کے اخلاف میں سے کسی وجہ سے کوئی شخص یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکا تو کوئی اور بھی نہ دے۔وہ اہلِ علم بزرگ یقینا ہمارے بھی بزرگ تھے۔ہم نے ان سے فیض حاصل کیا ہے اور ان کی تصانیف اور ان کی اولاد کی مساعیِ تدریس کے ذریعے سے اب بھی حاصل کر رہے ہیں، ہم سب کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ان کے حالات قلم بند کرنے کی کوشش کریں، چنانچہ یہ فقیر اپنے طور پر کسی نہ کسی نہج سے بزرگانِ دین کے احوالِ زندگی حوالہء قلم کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔مولانا احمد الدین گکھڑوی کے متعلق بھی جو کچھ میسر آیا، لکھ دیا گیا۔ یہ ضروری نہیں کہ علماے سلف کے ورثا اپنے آباواجداد کے ہر کارنامے سے آگاہ ہوں اور دوسرے لوگ ان کے بارے میں بالکل ناواقف ہوں۔جو کچھ کسی کو معلوم ہے اس کا بہتر طریقے سے اظہار کرنا چاہیے۔بعض مشہور علمی خاندانوں کے اسلاف کے بعض اہم واقعات سے ان کے بہت لکھے پڑھے اخلاف آگاہ نہیں اور اللہ کے فضل سے یہ فقیر آگاہ ہے۔میرا فرض ہے کہ میں ان اہم واقعات کو ذہن کے