کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 33
میں ان کی جہدِ مسلسل کے جو نقوش ہر آن ابھرے رہے، ہماری عدمِ توجہ سے اب وہ نقوش مدہم پڑگئے ہیں۔ان بزرگانِ عالی مرتبت میں سے ایک جلیل المنزلت شخصیت انہی مولانا احمد الدین گکھڑوی کی تھی۔ان کی وفات پر ابھی چالیس برس بھی نہیں گزرے اور ان سے ملنے والے بہت سے اصحابِ علم اللہ کی مہربانی سے موجود ہیں، لیکن ہماری حرماں نصیبی ملاحظہ ہو کہ ہم ان کی خدماتِ دینی کی تفصیل سے پوری طرح واقف نہیں۔کچھ اور بزرگ بھی ہیں جو ہماری لوحِ ذہن سے تقریباً محو ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا عبداللہ معمار اور حبیب اللہ کلرک کو لیجیے۔ان دونوں کا تعلق امرتسر سے تھا اور مرزائیت کی مخالفت میں انھوں نے جو تحریری مواد جمع کیا اور خاص ترتیب کے ساتھ شائع کرایا، وہ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔مولانا عبداللہ معمار مزدوری کرتے اور لوگوں کے مکان بناتے تھے۔اپنی مزدوری کے اوقات سے وقت نکال کر وہ مرزائیوں سے مناظرے بھی کرتے تھے اور اس موضوع پر کتابیں بھی لکھتے تھے۔اس سلسلے میں ان کی ایک مشہور اور ضخیم کتاب’’محمدیہ پاکٹ‘‘ ہے، جو تقسیم ملک سے پہلے بھی چھپی اور بعد میں بھی چھپی۔مرزائیت کے بارے میں یہ کتاب کتب حوالہ میں سے ہے۔لیکن مولانا عبداللہ معمار کا کبھی کسی نے تذکرہ نہیں کیا۔وہ 1950ء میں فوت ہوئے تھے اور میں نے انہی دنوں ’’الاعتصام‘‘ میں ان پر مضمون لکھا تھا۔اس کے بعد کسی نے ان کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ حبیب اللہ کلرک امرتسر میں محکمہء انہار میں کلرک تھے۔مرزائیت سے متعلق بہت معلومات رکھتے تھے۔اس سلسلے کے وہ بہت بڑے مقرر بھی تھے اور کئی اہم رسائل کے مصنف بھی۔تقسیم ملک سے قبل ان کی بڑی شہرت اور بہت مانگ تھی، لیکن اب ہماری یادوں کے کسی ورق کی کسی سطر میں کہیں ان کا نام اور کام دکھائی نہیں دیتا۔