کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 32
ہوگئے… یہ ایک المیہ ہے کہ جس انداز اور جس سلیقے سے کتابی صورت میں یا مضامین کی صورت میں مولانا احمدالدین کے حالات و خدمات مرتب ہونا چاہئیں تھے، کسی صاحب نے نہ کیے۔اس کتاب میں یہ خلا پُر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان شاء اللہ قارئین کو اس سے کافی مواد مل جائے گا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ زندگی کے آخری دور میں مولانا احمد الدین نے اپنے کسی پرانے ساتھی کو اپنے ہاں تشریف لانے کی دعوت نہیں دی۔جن حضرات کی رفاقت میں وہ مختلف مقامات کے جلسوں اور مناظروں میں شرکت فرماتے رہے، ان میں سے کسی کو خط لکھ کر نہیں بلایا۔اپنے سے بہت کم عمر ایک جماعتی اخبار کے رکن کو بلایا جو کبھی ان کے ساتھ کسی جلسے یا مناظرے میں نہیں گئے ہوں گے۔اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ ان کے مناظرات کے اہم پہلوؤں کو حیطۂ تحریر میں لا کر اخبار میں شائع کیا جائے تاکہ لوگ ان سے استفادہ کر سکیں، لیکن حالات کی رفتار کچھ ایسی رہی کہ مولانا محمد سلیمان انصاری کو بھی ان کے واقعاتِ حیات اور مناظرات کے اہم پہلوؤں کو جمع کرنے اور ترتیب دینے کی فرصت نہ ملی اور پھر اس ملاقات کے چند روز بعد خود مولانا احمد الدین بھی اس دنیا کو چھوڑ کر عالمِ آخرت میں جا پہنچے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کو بھلا دیا ہے یا اس سے بے رخی اختیار کرلی ہے۔ہمارے اسلاف نے جو تحریری، تصنیفی، مناظراتی اور تدریسی خدمات سرانجام دیں، ہم بہت حد تک اس سے نا آشنا ہیں۔ہمارے وہ بزرگ جو تمام عمر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے، جنھوں نے بے شمار لوگوں کو علم کی دولت سے مالامال کیا اور جن کے شب و روز خطابت ومناظرات کی صورت میں تبلیغِ دین میں بسر ہوئے، ان میں سے کتنے ہی بزرگوں سے ہم نے رشتہ توڑ لیا ہے۔ان کی زندگیوں