کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 31
ان کے وہ رفقاے کرام اور علماے عظام جو مختلف مقامات کے جلسوں اور مناظروں میں ان کے ساتھ رہے، وہ ان کی تقریروں اور مناظروں کی تحسین تو کرتے ہیں، لیکن ان کی تفصیل ان میں سے کوئی صاحب بیان نہیں فرماتے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ان کے مناظروں کی تفصیل کیوں بیان نہیں کی گئی؟ مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی کے بقول وہ استاذ المناظرین تھے۔استاذالمناظرین کے مناظروں کے موضوع اور ان کی تفصیل ضبطِ تحریر میں آنا چاہیے تھی۔
معلوم ہوتا ہے زندگی کے آخری دور میں انھیں یہ احساس ہوگیا تھا کہ انھوں نے خطابتی اور مناظراتی صورت میں جو خدمات سر انجام دی ہیں، وہ تحریری طور پر بھی محفوظ ہوجانی چاہئیں، چنانچہ اپنے آخری ایامِ مرض میں وفات سے کچھ دن پہلے انھوں نے اخبار ’’الاعتصام‘‘ کے عملہء ادارت کے مرحوم رکن مولانا محمد سلیمان انصاری کو خط لکھا اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی۔مولانا محمد سلیمان انصاری ان کی خدمت میں گکھڑ گئے تو انھوں نے اس قسم کی باتیں کیں کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو اپنے بزرگوں کے کارنامے جمع کرنے کا شوق نہیں ہے۔اپنے خاندان کے نوجوانوں کے متعلق کہا کہ حصولِ علم کی طرف ان کی توجہ نہیں۔
مولانا محمد سلیمان انصاری سے انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ موجودہ دور کے علما ہم جیسے تجربہ کار لوگوں سے استفادہ نہیں کرتے، حالاں کہ ہماری باتیں ہمارے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد انہی کے کام آنے والی ہیں۔
ظاہر ہے اس قسم کی گفتگو کا مطلب یہی تھااور بالکل صحیح تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر جماعت کی جو خدمت کی ہے، افادہِ عام کے لیے اسے کسی صورت میں محفوظ و مرتب کیا جائے۔مولانامحمد سلیمان انصاری بھی عرصہ ہوا دنیا سے رخصت