کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 30
کے اہم نکات خاص ترتیب سے ضبطِ تحریر میں لاسکتا، نہ ان کے کسی دوست اور شاگرد نے اس پر غور کیا اور نہ خود ان کا اپنا دھیان اس طرف گیا کہ تاریخ وار ان مناظرات کی روداد قلم بند کی جائے۔اس دور میں ذرائع ابلاغ کا بھی اتنا پھیلاؤ نہ تھا اورجماعت اہلِ حدیث کے بھی زیادہ اخبار نہ تھے۔پورے برصغیر میں صرف دو تین ہفت روزے اور ماہنامے ہوں گے۔ان میں ان کے مناظروں کے تمام ضروری اور بنیادی پہلو ضبطِ تحریر میں نہیں آسکتے تھے۔پھر مناظرے بھی جگہ جگہ ہو رہے تھے اورمسلسل ہو رہے تھے، اخباروں میں کس کس مناظرے کا ذکر کیا جاتا۔اسے لوگ معمول کا واقعہ قرار دیتے تھے۔علاوہ ازیں وہ ان کی جوانی کا دور تھا اور جوانی میں بے پروائی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ درویش منش مناظر تھے۔ہر مناظرے میں ان کا مقصد کتاب و سنت کی تبلیغ اور اپنے مسلک کی حقانیت کا اظہارو اثبات ہوتا تھا اور وہ مقصد نہایت اچھے طریقے سے حاصل ہوجاتا تھا۔حالات بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس مسئلے پر کبھی غور نہیں فرمایا کہ مذہبی طور پر ان کے مناظرے خاص تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت ضروری ہے۔یہ محفوظ رہیں گے تو آیندہ نسل ان سے فائدہ اٹھائے گی۔وہ ہر مناظرے کو ایک وقتی اور ہنگامی تبلیغی معاملہ سمجھتے رہے اور اسی پر عمل پیرا رہے۔
میں نے چھوٹی عمر میں تقسیم ملک سے بہت سال پہلے ان کے دو مناظرے سنے تھے۔ایک مناظرہ دیہات میں جمعہ پڑھنے کے متعلق ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں میں بریلوی عالم مولانا محمد حسین(ساکن گوندلاں والا)سے ہوا تھا اور دوسرامناظرہ انھوں نے ضلع فیروزپور ہی کے مشہور تدریسی مرکز’’ لکھو کے‘‘ کے قریب موضع ڈھنڈیاں میں مولانا حافظ عبدالستار دہلوی سے کیاتھا۔ان دونوں مناظروں کی تفصیل مجھے یاد ہے، جس کے بعض اہم حصے آیندہ صفحات میں خوانندگانِ محترم کے مطالعہ میں آئیں گے۔