کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 29
مناظر پنجہ آزمائی میں مشغول ہیں، کہیں عیسائی پادریوں اور مسلمان عالموں میں سلسلۂ بحث جاری ہے، کہیں مرزائی اور مسلمان ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں، کہیں اہلِ حدیث اور بریلوی حضرات آمنے سامنے سٹیج لگائے ہوئے ہیں، کہیں شیعہ اور اہلِ سنت ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں۔وہ علمی اعتبار سے دلچسپ اور مذہبی لحاظ سے معلومات افزا دور تھا، جس میں جگہ جگہ علم کی ورزش اور تحقیق کی کشتی کے اکھاڑے جمے ہوئے تھے۔اس دور میں ایک عجیب تراور مسرت آمیزبات یہ تھی کہ ہرطرف کے لوگ نہایت اطمینان و تحمل اور ہنسی خوشی سے ایک دوسرے کی باتیں سنتے تھے۔کسی جانب سے کسی قسم کی ہنگامہ آرائی نہیں ہوتی تھی۔نہ مناظرے سے پہلے کوئی فریق کسی فریق سے جھگڑتا تھا، نہ اثنائے مناظرہ میں کسی جانب سے سختی کی فضا پیدا کی جاتی تھی اور نہ مناظرے کے بعد ہاتھا پائی تک نوبت آتی تھی۔بات علمی لحاظ سے افہام و تفہیم کے دائرے میں رہتی تھی۔اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔لڑائی جھگڑا کرنے والوں کوشکست خوردہ سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ علمی بات کا جواب علمی اسلوب میں نہیں دے سکتے، اس لیے لڑائی جھگڑے پر اتر آئے ہیں۔
مولانا احمدالدین گکھڑوی اگرچہ طالب علمی کے زمانے میں بھی اپنے مذہب ومسلک کے مخالفین سے بحث و مباحثہ جاری رکھتے تھے، لیکن تعلیم سے فراغت کے بعدوہ باقاعدہ طور سے 1920ء کے پس وپیش مناظرے اور تقریر کے میدان میں اترے۔پھر عیسائیوں، شیعوں، مرزائیوں اور بریلویوں سے ان کے بے شمار مناظرے ہوئے اور اس زمانے میں ان کے مناظروں کی سامعہ نوازگونج دور دور تک سنی گئی۔لیکن اتنے بڑے اور کامیاب مناظر کے تاریخی طور سے ترتیب وار مناظرات کی تفصیل ہمارے علم میں نہیں آتی۔میرے خیال میں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نہ ان کے رشتے داروں میں کسی شخص کو علم ودانش سے اتنا تعلق تھا کہ وہ ان کے مناظرات و مباحث