کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 28
حرفے چند
(طبع اوّل)
مولانا احمد الدین گکھڑوی نے جس خاندان میں جنم لیا اور جس گھرانے میں شعور کی دہلیز پر قدم رکھا، اس خاندان میں صالحیت کے آثار تو موجود تھے، لیکن خاندان کے کسی فرد کو علم سے شناسائی نہ تھی۔احمد الدین اس خاندان کے پہلے اور واحد فرد تھے، جنھوں نے اپنی ذاتی کوشش اور بھاگ دوڑ سے حصولِ علم کی راہ اپنائی اور پھر ان کے سلسلۂ تقریر و خطابت اور مناظرات نے وہ رنگ باندھا کہ اس سے ایک دنیا متاثر و محظوظ ہوئی۔جہاں گئے کامیابی نے آگے بڑھ کر ان کااستقبال کیا۔
بے شک وہ مصنف بھی تھے اور انھوں نے جو کتابیں تصنیف کیں، وہ اپنے موضوع کی نہایت تحقیقی کتابیں ہیں، جن کا تذکرہ اس کتاب کے ایک مستقل باب میں کیا گیا ہے اور آیندہ صفحات میں قارئین کے مطالعہ میں آئے گا۔حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی جیسے جلیل القدر عالم ومحقق نے ان پر تقریظیں لکھیں۔لیکن ان کی شہرت کا اصل باعث ان کے مناظرے اور مباحثے ہوئے اور تقریر و خطابت کا وہ خاص انداز ہوا جو انھوں نے اختیار کیا۔وہ متحدہ ہندوستان کا زمانہ تھا اور تمام مذاہب و مسالک کے لوگ اس ملک میں آباد تھے۔ان کے اہلِ علم کے درمیان مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔لوگ دیکھتے تھے کہ کہیں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے آریہ سماجی اور سناتن دھرمی باہم ٹکرا رہے ہیں، کہیں مسلمان اور آریہ سماجی