کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 26
گکھڑوی کو دعوت دی جائے۔چنانچہ مولانا احمد الدین کو بلایا گیا اور مولانا نے اللہ کے فضل سے مناظرہ جیت لیا اور قادیانیوں کو شکستِ فاش ہوئی۔لوگ جب فاتحانہ جلوس کی شکل میں بھینی سے شرق پور آئے تونمازِ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔سب نے عقیدت واکرام سے مولانا احمد الدین گکھڑوی کو امامت کے لیے اصرار کیا اور مولانا نے نمازِ مغرب کی امامت کرائی، لیکن وائے افسوس! محترم مولاناخیر محمد جالندھری مرحوم نے ان کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھی اور فرمایا: ’’میں غیر مقلد کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
زیرِ نظر کتاب میں مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی نے بڑے سلیقے اور ادبی اسلوب سے امام المناظرین مولانا احمد الدین گکھڑوی کی سوانح نگاری فرمائی ہے۔اور ان کی زندگی کے تمام علمی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ہم اس عظیم کارنامے کی انجام دہی پر بھٹی صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور تاریخِ اہلِ حدیث میں ایک زریں باب کے اضافے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔اسی طرح ہم لجنۃ القارۃ الھندیہ کو یت کے رئیس فضیلۃ الشیخ ابو خالد فلاح خالد المطیری اور محترم شیخ عارف جاوید محمدی رئیس مرکز دعوۃ الجالیات کویت کے بھی شکرگزار ہیں کہ جن کی خصوصی توجہ اور دلچسپی سے ہمیں ایک اہم اور عظیم شخصیت کے حالات زندگی سے آگاہی ہوئی۔اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو اپنی نیک جزاؤں سے نوازے۔آمین
آخرمیں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بھٹی صاحب نے ماشاء اللہ کتابیں تو بہت لکھی ہیں لیکن لجنۃ القارۃ الہندیہ کے لیے اب تک ان کی پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں جو نہایت اہم ہیں اور مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلی کتاب ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔یہ اپنی