کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 25
میں نے تعجب سے پوچھا: ’’وہ آپ کے ہم جماعت کیسے ہو سکتے ہیں ؟‘‘
قدوسی صاحب نے فرمایا:
’’جب ہم حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلوی سے سراجی(علم فرائض)کا درس لیا کرتے تھے تو اس دوران مولانا گکھڑوی بھی شریک درس ہوا کرتے تھے اور بڑے انہماک سے درس سنا کرتے تھے۔اس لحاظ سے وہ ہمارے ہم جماعت ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے۔‘‘
پھر فرمانے لگے کہ میں نے مولانا گکھڑوی کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’الحمد للّٰه! مجھے کسی مناظرے میں شکست نہیں ہوئی۔‘‘
محترم عارف جاوید محمدی، شیخ الحدیث مولانا حافظ مسعود عالم(جامعہ سلفیہ فیصل آباد)کے حوالے سے مولانا گکھڑوی کے ایک مناظرے کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’حافظ مسعود عالم صاحب ملک حسن علی جامعی مرحوم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ شرق پور کے قریب دریائے راوی کے کنارے ایک مقام ’’موضع بھینی‘‘ میں کسی زمانے میں قادیانی کافی تعداد میں آباد تھے اور اس گاؤں میں دیوبندی مسلک کے بھی بہت سے گھرانے سکونت پذیر تھے۔ایک دفعہ فریقین کے مابین مناظرہ طے ہوا، تو دیوبندی حضرات نے قادیانی مناظرکے مقابلے میں جالندھر سے ممتاز عالم دین مولانا خیر محمد جالندھری(معروف عالمِ دین مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کے والدِ گرامی)کو بلایا۔دو تین دن مناظرہ جاری رہا، لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا، بالآخر وہاں کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا احمد الدین