کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 24
انتہائی سادہ مزاج اور کم گو تھے۔قمیص کے بٹن اکثر کھلے رکھتے اور تہبند باندھتے، سرپر بید کی ٹوپی اور ہاتھ میں لاٹھی …! جب بھی قلعہ میں تشریف لاتے تو اگر جمعہ کا دن ہوتا تو خطبہ جمعہ وہی ارشاد فرمایا کرتے اور اگر جمعہ کے علاوہ کسی دن تشریف لاتے تو درسِ قرآن ضرور ارشاد فرماتے۔ایک دفعہ مولانا ایک شادی میں شرکت کے لیے قلعہ دیدار سنگھ تشریف لائے تو بطور تکریم وہ لوگوں کے آگے آگے تھے اور ان کی لاٹھی میں(عارف جاوید محمدی)نے پکڑی ہوئی تھی۔شادی والے گھر گئے تو وہاں نکاح خوانی کے لیے اس نواح کے حنفی عالمِ دین قاضی عصمت اللہ مدعو تھے۔جب مولانا وہاں پہنچے تو قاضی صاحب نے جلدی جلدی نکاح پڑھایا اور فوراً وہاں سے رخصت ہوگئے۔
نکاح کے بعد مولانا نے پوچھا:’’کیا عصمت اللہ چلے گئے ہیں ؟‘‘
میں نے جواب دیا:’’جی ہاں ! وہ تشریف لے گئے ہیں۔‘‘
فرمانے لگے: ’’اس نے چلے ہی جانا تھا، کیوں کہ اسے پتا چل گیا تھا کہ احمد الدین آگیا ہے۔‘‘
اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا احمد الدین کی تمام مسالک کے علما پر ایک ہیبت تھی اور رعب تھا۔
مولانا گکھڑوی کے علمی شغف اور اہلِ علم سے وابستگی کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عارف جاوید محمدی بیان کرتے ہیں کہ جب مولانا عبدالخالق قدوسی کویت تشریف لائے تو اثناے گفتگو میں مولانا گکھڑوی مرحوم کا ذکرِ خیر آگیا۔مولانا قدوسی نے فرمایا:’’وہ میرے ہم جماعت تھے۔‘‘