کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 22
تو ہم حضرت مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی کے بارے میں بڑی بڑی کانفرنسوں اور جلسوں کے اشتہارات میں سلطان المناظرین کا لقب لکھا ہوا دیکھتے اور لوگوں کی زبان سے ’’شیر بہادر، شیر بہادر، عبدالقادر، عبدالقادر‘‘ کے نعرہ ہائے پرُ جوش سنا کرتے تھے۔اسی طرح مولانا احمد الدین گکھڑوی کے شدید المعارضہ ہونے اور حاضر جوابی کے چرچے بھی سنتے تھے اور لوگ انھیں امام المناظرین اور استاذ المناظرین کے القاب سے یاد کیا کرتے تھے۔بلاشبہہ وہ جماعت اہلِ حدیث کے ممتاز مناظرین میں سے تھے، جیسا کہ مورخِ اہلِ حدیث تحریر فرماتے ہیں :
’’مسلکِ اہلِ حدیث سے وابستہ مناظر حضرات کی وسیع فہرست میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد بشیر سہسوانی، مولانا محمد ابرہیم میرسیالکوٹی، مولانا ابوالقاسم بنارسی، مولانا احمد الدین گکھڑوی، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا عبداللہ معمار، مولانا نور حسین گرجاکھی اور دیگر متعدد بزرگانِ دین شامل ہیں۔‘‘(قافلہ حدیث صفحہ: 492)
دوسرے بہت سے اکابرین کی طرح مولانا گکھڑوی مرحوم کی، جدوجہد سے بھرپور زندگی کے بہت سے گوشے عصرحاضر کے زیادہ تر لوگوں کی نگاہ سے اوجھل تھے۔ان کی حاضر جوابی، طرزِ استدلال اور زورِ بیان کے واقعات سننے والا ہر شخص متمنی تھا کہ اپنے دور کی اس عبقری شخصیت کے حالات زندگی سے آگاہی حاصل کرے۔اللہ تعالیٰ مورخِ اہلِ حدیث مولانامحمد اسحاق بھٹی کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے یہ عظیم کارنامہ سر انجام دے کر جہاں تذکرہ اسلاف میں ایک اور باب کا اضافہ کر دیا ہے، وہاں بہت سے شائقین کی تشنگی دور کرنے اور تسکین طبع کاسامان بہم پہنچا نے کا اہتمام بھی کر دیا ہے۔