کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 21
ہیں اور جس عمدہ اسلوب اور خوبی سے انھوں نے وقائع نگاری کی ہے، اسے پڑھتے ہوئے ان کا قاری یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ اسی دور میں رہ رہا ہے اور انہی شخصیات کے درمیان موجود ہے۔مختلف لوگوں کے عرف وعادات، مختلف مقامات کے جغرافیائی و موسمی احوال اور سیاسی ومعاشرتی کوائف اور وجوہِ تسمیہ جیسی نادر معلومات فراہم کرکے وہ قارئینِ کرام کی معلومات میں اضافے کا سامان پیدا کرتے ہیں، کیوں کہ انھیں یقین ہے:
’’اگر آئینہ قلب صاف ہو اور نیت زنگ آلود نہ ہوچکی ہو تو قدم خود بخود کامرانی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں اور مستقبل کی راہ بہت جلد متعین ہو جاتی ہے۔‘‘(نقوشِ عظمتِ رفتہ صفحہ: 266)
قارئینِ کرام! ہمارے بہت سے نامور اکابرین اور جید علماے عظام جنھیں اللہ تعالیٰ نے بوقلموں اوصاف اور گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا ہے، مختلف علوم وفنون میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے، لیکن ان کے بعض اوصاف اور خوبیاں ان کی پہچان کی علامت بن گئی ہیں، مثلاً: شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کو لیجیے، کم وبیش دو سو بہترین کتب کی تصنیف اور اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ میں ہزاروں مضامین لکھنے کے باوجود ان کی پہچان فنِ مناظرہ میں ان کی وہ مہارت ہے، جو اور کسی کے حصے میں نہ آئی۔شہیدِ اسلام حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر اردو وعربی کے ایک صاحبِ طرز ادیب اور مصنف ہیں، لیکن ان کی پہچان کی علامت ان کی خطابت ہے کہ اپنے دور کے لاجواب خطیب ہونے کی بنا پر انھیں ’’خطیبِ ملت‘‘ کہا جاتا تھا۔مولانا محمد صدیق کرپالوی شیخ الحدیث اور ایک کامیاب خطیب تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی پہچان کی علامت فنِ مناظرہ بن گیا تھا۔اسی طرح حضرت مولانا احمد الدین گکھڑوی ایک محقق عالمِ دین اور خطیب بھی تھے، لیکن فنِ مناظرہ ان کی پہچان بن چکا تھا۔جب ہم نے ہوش سنبھالا