کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 20
کے باوجود ان کا یہ بیان بھی ملا حظہ فرمائیے جو ان کی تواضع کا ثبوت اور عظمت کی دلیل ہے۔’’کاروانِ سلف‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
’’میں نے اپنی کسی تحقیقی اور تحریری کاوش کو کبھی حرفِ آخر نہیں سمجھا۔ہر لکھنے والے سے لغزشِ قلم اور لغزشِ فکر ہو سکتی ہے، مجھ سے بھی ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔اس کتاب میں بھی بے حد احتیاط کے باوجود کہیں نہ کہیں میں نے ضرور ٹھوکر کھائی ہوگی۔اگر کسی صاحب کو اس میں کوئی اچھی بات نظر آئے تو اسے محض اللہ کا فضل قرار دیا جائے کہ اس نے مجھے اظہار وبیان کی توفیق مرحمت فرمائی اور اگر کہیں کوئی نقص دکھائی دے تو اسے میری کوتاہی اور کم نظری پر محمول کیا جائے۔‘‘
(کاروانِ سلف صفحہ: 12، 13)
بھٹی صاحب، جس ذوق وشوق سے اپنے اکابرین کی مساعئی جمیلہ کو اجاگر کرتے اور ان کے تذکارِ حسین کو جس سلیقے اور قرینے سے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، اس کا اندازہ ان کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے:
’’میں نے اپنے طور پر اس کتاب کے صفحات میں علماے اہلِ حدیث کی ایک چھوٹی سی کہکشاں سجانے کی کوشش کی ہے۔اس کہکشاں کے ہر تارے نے اندھیروں میں اجالا کیا اور ظلمات کو روشنی بخشی ہے۔ان سے استفادہ کرنے والے حضرات اس روشنی کی حدود کو اپنے انداز سے برابر آگے بڑھا رہے ہیں، میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب رہاہوں، اس کا فیصلہ خوانندگانِ محترم کے ذوقِ مطالعہ پر چھوڑتا ہوں۔‘‘
(کاروانِ سلف صفحہ: 12)
الحمدللّٰه! وہ یقینا اس عظیم کاوش میں کامیاب ہیں اور ان کی مساعی قابلِ رشک