کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 117
گرجاکھی اور مولانا ابراہیم سیالکوٹی حاضر تھے، جب کہ مرزائیوں کی طرف سے ملک عبد الرحمان خادم گجراتی اور محمد سلیم پیش ہوئے۔ذیل میں ہم اس مناظرے کے ایک عینی شاہد مولانا عبد اﷲ معمار کی تحریر کردہ روداد درج کرتے ہیں، جو اس وقت کے ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر(16 جون 1933ء)میں شائع ہوئی تھی۔ مولانا معمار لکھتے ہیں : ’’3/4 جون 1933ء کو یہ شاندار مناظرہ ہوا، جس نے ہمیشہ کے لیے مرزائیت کو سیالکوٹ سے جلا وطن کر دیا۔یہ مناظرہ چار مضامین پر مشتمل تھا: 1۔ نکاح محمدی بیگم۔ 2۔ حیاتِ مسیح علیہ السلام۔ 3۔ صدق و کذبِ مرزا۔ 4۔ ختمِ نبوت۔ ’’ہر روز چار گھنٹے مناظرہ ہوتا تھا۔صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک ایک مبحث پر۔پھر سہ پہر سے پانچ بجے سے سات بجے تک دوسرے مبحث پر۔جماعتِ اہلِ حدیث کی طرف سے نکاح محمدی بیگم کے مضمون پر پہلے دن نشست اول میں مولوی احمد دین صاحب مناظر تھے۔دوسرے وقت مبحث حیاتِ مسیح پر حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی۔دوسرے دن نشست اول میں مضمون کذب و صدقِ مرزا پر مولوی لال حسین اختر صاحب اور اسی دن دوسری نشست میں مبحث ختمِ نبوت پر حضرت مولانا سیالکوٹی۔ ’’اﷲ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ان چہار مناظروں میں اس نے ہمیں نمایاں، بیّن اور عیاں فتح مبین عطا فرمائی۔الحمد للّٰه ثم الحمد للّٰه۔ شکریہ پر شکریہ اس بات کا ہے کہ مسلمانانِ سیالکوٹ پر از مسرت طبائع اور مسرور و مطمئن پر از انبساط قلوب میں خوشی اور شادمانی کی بے انتہا