کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 109
بھی کہا جاتا ہے۔قیامِ پاکستان سے قبل وہاں اہلِ حدیث کے چند گھرانے آباد تھے۔قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں کچھ مدت وہاں حضرت حافظ عبداللہ روپڑی اوران کے بھتیجے حافظ عبدالقادر اور حافظ اسماعیل روپڑی سکونت پذیر رہے۔ان دنوں بریلوی حضرات کے حلقوں میں سانگلہ ہل کے مولانا عنایت اللہ کا بڑا شہرہ تھا۔انھوں نے اہلِ حدیث حضرات کو وہاں مناظرے کی دعوت دی جو قبول کرلی گئی۔مولانا احمدالدین بھی پہنچ گئے۔اب مولانا عنایت اللہ کی تشریف آوری کا انتظار ہونے لگا۔اردگرد کے لوگوں کو مناظرے کی اطلاع پہنچ چکی تھی، اس لیے مناظرہ سننے کے لیے بہت سے لوگ منڈی روڈالا روڈ آئے۔لیکن مولانا عنایت اللہ نہیں پہنچے۔ مناظرہ تو نہ ہوا لیکن لوگوں نے مولانا احمد الدین کو دیکھنے کی خواہش کی جو وہاں مولانا عنایت اللہ صاحب سے مناظرے کے لیے تشریف لائے تھے۔سردیوں کا موسم تھا۔مولانا احمد الدین کمبل اوڑھے بیٹھے تھے جو دو تین جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ان کی زیارت کے شائقین ان کی سادگی سے نہایت متعجب ہوئے۔ ( فاروق آباد کا قصہ: ایک مرتبہ فاروق آباد(ضلع شیخوپورہ)میں مولانا عنایت اللہ صاحب کی تقریر کا پروگرام تھا۔وہ اہلِ حدیث کے سخت مخالف تھے اور ان کی ہر تقریر اہلِ حدیث کی مخالفت کے گرد ہی گھومتی تھی۔فاروق آباد کے اہلِ حدیث حضرات کو یہ اندیشہ تھا کہ مولوی عنایت اللہ اپنی تقریر میں اہلِ حدیث کو مناظرے کا چیلنج کریں گے اور فوری طور پر کسی مناظر کا انتظام کرنا مشکل ہوگا۔اس اندیشے کے پیش نظر انھوں نے پہلے ہی مولانا احمد الدین کو فاروق آباد بلالیا۔مولانا عنایت اللہ کو ان کی آمد کا پتا چل گیاتھا۔انھوں نے حسبِ عادت تقریر میں اہلِ حدیث کی مخالفت تو کی، لیکن مناظرے کا چیلنج نہیں کیا۔