کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 104
اس زمانے میں سفر کا زیادہ تر ذریعہ ریل گاڑی تھا۔مولانا احمد الدین اور ان کے رفقاے کرام اسٹیشن پر پہنچے تو ریل گاڑی نکل چکی تھی۔دوسری گاڑی کچھ دیربعد آئی اوریہ حضرات تاخیر سے اپنی منزل پر پہنچے، جب کہ مولانا محمد عمر اچھروی اور ان کے ساتھی، ان سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔دونوں طرف سٹیج لگا ہوا تھا۔مولانا محمد عمر اچھروی کھڑے ہوئے اور مولانا احمد الدین اور ان کے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اشتہار پر نو بجے کا وقت لکھا ہے۔آپ دیر سے آئے ہیں، آپ نے ہمارا وقت ضائع کیا ہے، اس پر معذرت کریں۔مولانا احمد الدین نے کہا: دکھائیے اشتہار! اشتہار دیکھا تو مناظرے کا وقت صرف ’’نو بجے‘‘ لکھا تھا۔یہ نہیں لکھا تھا کہ نو بجے صبح یا نو بجے رات۔مولانا احمد الدین نے فرمایا: ابھی نو نہیں بجے۔(یعنی رات کے نو)اس طرح ہم دیر سے نہیں آئے، معذرت کس بات کی کریں۔[1] اس کے بعد مناظرہ شروع ہوا اور اختتام پر ثالثوں نے مولانا احمد الدین گکھڑوی کی کامیابی کا اعلان کردیا۔کسی قسم کا کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ ( مناظرۂ لالہ موسیٰ: ایک دوست نے مجھے ایک کتاب عنایت فرمائی ہے جو 33 صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا نام ہے ’’مناظرہ لالہ موسیٰ‘‘۔کتاب بہت سال پہلے صوفی احمد الدین خطیب جامع مسجد اہلِ حدیث منڈی بہاء الدین(ضلع گجرات)نے شائع کی تھی۔یہ مناظرہ 13، 14 اکتوبر 1934ء کو مولانا احمد الدین گکھڑوی اور مولانا عبدالغفور ہزاروی کے درمیان ہوا تھا۔مناظرے کے مندرجہ ذیل تین موضوع طے ہوئے تھے۔
[1] یہ واقعہ مولانا محمد یوسف انور نے مولانا احمد الدین سے متعلق ان واقعات میں بھی لکھا ہے جو انھوں نے میرے نام ارسال فرمائے۔یہ واقعات اس کتاب کے باب نمبر(17)میں ملاحظہ فرمائیے۔