کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 102
کی دعوت دیا کرتے تھے اور وہ ان کے جلسوں میں شرکت فرماتے اور تقریر کرتے تھے۔مسئلہ توحید پر وہ بڑا موثر وعظ فرماتے تھے۔لیکن اس کے باوجود ان کے ذہن میں حنفیت نے بھی مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ بہرحال مولانا احمد الدین گکھڑوی کو حضرت شاہ عنایت اللہ صاحب بخاری سے بھی مناظرے کا موقع ملا۔ مناظرے کے بعد لوگوں کی درخواست پر اسی میدان میں مشترکہ طور پر احناف اور اہلِ حدیث مقرروں کی اصلاحی اور مصالحتی تقریریں ہوئیں، جس کا عوام پر بہت اچھا اثر ہوا۔ (گوجراں والا کا ایک اور مناظرہ: گوجراں والا ہمیشہ سے ایک مذہبی شہر کی حیثیت سے مشہور ہے۔وہاں اہلِ حدیث اور بریلوی حضرات کے درمیان مختلف اوقات میں کئی مناظرے ہوئے۔ایک مناظرے کا ذکر گزشتہ سطور میں ہو چکا ہے، جس میں مولانا احمد الدین اور مولانا محمد عمر اچھروی(بریلوی)مناظر تھے۔مولانا نور حسین اس مناظرے میں مولانا احمدالدین کے معاون اور رفیقِ مناظرہ تھے۔اس مناظرے کی تاریخ اور موضوع کا علم نہیں ہوسکا۔یہ مناظرہ گوجراں والاکے بڑے قبرستان سے متصل وسیع میدان میں ہوا تھا۔ اب گوجراں والا کے ایک اور مناظرے کا ذکر کیا جاتا ہے۔اس کی بھی تاریخِ انعقاد کا پتا نہیں چل سکا۔البتہ موضوع مناظرہ مسئلہ حاضروناظر اور نور و بشر تھا۔بریلوی حضرات کے مناظر مولانا محمد عمر اچھروی تھے اور اہلِ حدیث کے مولانا احمد الدین گکھڑوی۔لیکن اس مناظرے میں صرف نور وبشر کے مسئلے پر بحث ہوئی۔مولانا احمد الدین گکھڑوی نے قرآن و حدیث اور واقعات کی روشنی میں ثابت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم