کتاب: مولانا احمد دین گکھڑوی - صفحہ 101
جس میں لکھا کہ مولانا سرفرازصفدر صاحب نے مناظرے سے گریز کیا؟ اس کی وجہ یہ سننے میں آئی ہے کہ مولانا سرفراز صاحب نے یہ شرط عائد کی تھی کہ میں اس شخص کے ساتھ مناظرہ کروں گا، جس کا تدریس کا تجربہ چالیس سال کا ہو، اور مولانا سرفراز چالیس سال سے فریضہء تدریس انجام دے رہے تھے، جب کہ مولانا احمد الدین کو اتنے طویل عرصے کی تدریس کے مواقع میسر نہیں آئے تھے، اور مولانا سرفراز صاحب کو اس کا علم تھا۔مولانا احمد الدین نے اس شرط کو غلط ٹھہرایا اور اسے مولانا سرفراز کا مناظرے سے گریز قرار دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں اس شخص سے مناظرہ کروں گا، جس کا مناظرے کا تجربہ پچاس سال کا ہو، کیوں کہ میں خود مناظرے کا طویل تجربہ رکھتا ہوں تو یہ شرط بالکل غلط ہوگی۔سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے عمر اور تجربے کی شرط عائد کرنا قرینِ صحت نہیں۔اس طرح تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں اس شخص سے علمی گفتگو کروں گا، جس نے ان اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ہو، جن سے میں نے کی ہے، یا کسی مسئلے میں اس شخص سے بحث کروں گا، جس نے میرے جتنی کتابیں پڑھی ہوں یا میرے جتنی کتابیں لکھی ہوں یا جس کی عمر میرے جتنی ہو۔ ( نندو وال ضلع گجرات کا مناظرہ: یہ مناظرہ فروری 1936ء میں ہوا تھا۔اس کا موضوع نماز میں رفع الیدین کرنا تھا۔احناف کے مناظر مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری تھے اور اہلِ حدیث کے مناظر تھے مولانا احمد الدین گکھڑوی۔ سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری مرحوم احناف کے دیوبندی مکتبِ فکر کے مشہور عالم تھے۔انھیں بعض اہلِ حدیث حضرات بھی اپنے جلسوں میں تشریف آوری