کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 9
وابن حبان واعل بالارسال۔
ترجمہ: یعنی ابو بردہ بن ابی موسیٰ اپنے باپ (ابو موسیٰ ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح ولی کے بغیر جائز نہیں اور امام احمد نے عمران بن حصین سے روایت کیا ہے کہ نکاح ولی اور دو شاہدوں کے بغیر جائز نہیں ۔ (اس کو امام احمد، سنن اربعہ، ابن مدینی، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور ابن مدینی، ترمذی اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے اور اس میں مرسل ہونے کی علت بیان کی گئی ہے۔ [1]
[1] اس حدیث کی شرح میں صاحب سبل السلام لکھتے ہیں۔ قال ابن کثیر قد اخرجہ ابو داؤد والترمذی وابن ماجہ وغیرھم من حدیث اسرائیل وابو عوانۃ وشریک القاضی وقیس بن الربیع ویونس بن ابی اسحاق وزھیر بن معٰویۃ کلہم عن ابی اسحق کذلک قال الترمذی ورواہ شعبۃ والثوری عن ابی اسحق مرسلا قال والاول عندی اصح ھکذا صححہ عبد الرحمن بن مھدی فیما حکاہ ابن خزیمۃ عن ابن المثنی عنہ وقال علی بن المدینی حدیث اسرائیل فی النکاح صحیح وکذا صححہ البیہقی وغیر واحد من الحفاظ قال رواہ ابو یعلی الموصلی فی مسندہ عن جابر مرفوعا قال الحافظ الضیاء باسناد رحالہ کلہم ثقات۔
ترجمہ: ابن کثیر نے کہا کہ اس حدیث کو ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ نے اسرائیل سے روایت کیا ہے اور ابو عواز، شریک قاضی قیس بن ربیع، یونس بن ابی اسحاق اور زہیر ر بن معاویہ نے ابو اسحاق سے اسی طرح مسنداً روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا شعبہ اور ثوری نے اس کو ابو اسحاق سے مرسلاً روایت کیا ہے لیکن میرے نزدیک اول یعنی مسنداً ہی صحیح ہے۔ اسی طرح عبد الرحمن بن مہدی نے اس کے مسنداً ہونے کو صحیح کہا ہے جیسا کہ ابن خزیمہ نے ابن مثنی سے نقل کیا ہے اور علی بن مدینی نے فرمایا کہ اسرائیل کی حدیث جو نکاح کے بارہ میں ہے صحیح ہے۔ اسی طرح امام بیہقی اور دیگر بے شمار حفاظِ حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے اور ابو یعلی موصلی نے اس حدیث کو اپنی مسند میں جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ حافظ ضیاء نے کہا کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ اس کے بعد صاحب السبل نے لکھا ہے: والحدیث دل علی انہ لا یصح النکا الا بولی لان الاصل فی النفی نفی الصحۃ لا الکمال والولی ھو الاقرب الی المرءۃ من عصبتہا دون ذوی ارحامھا (سبل السلام ج ۲ ص ۶۴) یعنی یہ حدیث اس پر دال ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں کیونکہ نفی میں اصل صحت کی نفی ہے نہ نفی کمال کی اور ولی سے مراد وہ مرد ہے جو عورت کے زیادہ قریب ہو عصبوں سے نہ ذوی الارحام سے۔ نیل الاوطار میں ہے: حدیث ای موسٰی اخرجہ ایضاً ابن حبان والحاکم وصححاہ وذکرہ الحاکم طرقا قال وقد صحت الروایۃ فیہ عن ازواج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم عائشۃ وام سلمۃ وزینب ثم سرد ثلاثین صحابیا وقد جمع طرقہ الدمیاطی من المتاخرین الخ (نیل الاوطار ج ۶،۵ ص ۱۰۲) یعنی حدیث ابو موسیٰ (لا نکاح الا بولی) کو امام ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کیا اور صحیح کہا ہے اور حاکم نے اس کی بہت سی سندیں ذکر کی ہیں اور کہا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہ ہونے کے بارہ میں ازواج مطہرات عائشہ، ام سلمہ، زینب وغیرہ تیس صحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین سے حدیثیں مروی ہیں اور متاخرین سے دمیاطی نے اس کی تمام سندوں کو جمع کیا ہے۔
حاصل یہ کہ حدیث لا نکاح الا بولی اتنے کثیر طرق سے مروی ہے کہ اس کی صحت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا محدثین نے اس کی صحت کا حکم لگایا ہے جیسا کہ مختصراً مذکورہ بالا عبارت میں گزر چکا ہے۔ میں اس بحث کو طول دے کر قارئین کے ذہن کو اصل مسئلہ زیربحث سے دور لے جانا مناسب نہیں سمجھتا اگر ضرورت مقتضی ہوئی تو خاتمہ پر مستقل بحث کر دی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ہاں امام نوویؒ کا قول اس کی صحت کے بارہ میں نقل کئے دیتا ہوں جیسا کہ فرماتے ہیں ولکن لما صح قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم لا نکاح الا بولی مع غیرہ من الاحادیث الدالۃ علی اشتراط الولی یتعین احتمال الثانی (نوی ج ۲ ص ۴۵۵) خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ حدیث لا نکاح الا بولی صحیح ہے اور اس بارہ میں اور بھی بہت سی حدیثیں اس کی موید ہیں۔