کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 7
عورت نکاح میں ولی کی محتاج کیوں ہے؟ قسط نمبر ۳ تحریر: مولانا محمد صاحب کنگن پوری گزشتہ دو اقساط میں مسئلہ کی وضاحت قرآنی آیات سے ہو چکی ہے۔ اب اس کی تشریح احادیث نبویہ سے پیش کی جا رہی ہے۔ حاملِ قرآن مبلغِ فرقان رہبرِ دو جہاں فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ جو عورت کے نکاح میں لی کی شرط ہونے پر دال ہیں وہ بے شمار کتبِ حدیث میں روایت کئے گئے ہیں ۔ خصوصاً صحاح ستہ کی کوئی کتاب اس سے خالی نہیں ۔ بعض ائمہ نے تو مشہور حدیث لا نکاح الا بولی کے الفاظ سے ہی باب منعقد کئے ہیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے باب من قال لا نکا الا بولی (ص ۷۶۹) اور ترمذی ص ۱۷۵ میں ہے باب ما جاء لا نکاح الا بولی ابن ماجہ میں ہے لا نکاح الا بولی منتقی ابن تیمیہ رحمہ اللہ میں ہے باب لا نکاح الا بولی (ص ۱۰۱ مع نیل) نہ معلوم اور کتنے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ ابو داؤد میں یوں ہے باب فی الولی (ج۲، ص ۱۹۰) باب الولی فی النکاح واستیذان المراۃ۔ مشکوٰۃ میں ہے: عن ابی موسٰی عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال لا نکاح الا بولی رواہ احمد والترمذی وابو داؤد وابن ماجہ والدارمی ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں ۔ (اس کو احمدؔ، ترمذیؔ، ابو داؤد،ؔ ابن ماجہؔ اور دارمیؔ نے روایت کیا ہے)