کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 48
لم یکرہ منہ ذلک لانہ کان محتاجا الیہ لعدم من یحفظھا او للتشریع بالفعل ان ھذا غیر مفسد ومثلہ ایضاً فی زماننا لا یکرہ لواحد منا فعلہ عند الحاجۃ اما بدونھا فمکروہ اٰہ وقد اطال المحقق ابن امیر حاج فی الحلیۃ فی ھذا المحل ثم قال ان کونہ للتشریع بالفعل ھو الصواب الذی لا یدل عنہ کما ذکرہ النووی فانہ ذکر بعضھم انہ بالفعل اقوی من القول ففعلہ ذلک لبیان الجواز الخ
ترجمہ: صحیحین وغیرہ میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینبؓ کی بیٹی امامہ یعنی اپنی نواسی کو گود میں لے کے نماز پڑھ رہے تھے جب سجدہ کرتے تو اس کو رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُٹھا لیتے۔ اس کا جواب کئی طرح دیا گیا ایک تو وہ ہے جسے شارح نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث سے منسوخ ہے جس میں ان فی الصلٰوۃ لشغلا ہے لیکن یہ قبل از ہجرت تھی اور امامہ کا قصہ ہجرت کے بعد کا ہے۔ دوسرا جواب وہ ہے جو بدائع میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل مکروہ نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرورت کے تحت کیا ہے۔ اس لئے کہ امامہ کو سنبھالنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں تھا یا اس فعل کی مشرعیت ظاہر کرنے کے لئے آپ نے ایسا کیا کہ ضرورت کے وقت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں اور مفسدِ نماز نہیں اور ہمارے زمانے میں بھی کوئی ضرورت کے لئے ایسا کر لے تو مکروہ نہیں لیکن بغیر ضرورت کے ایسا کرنا مکروہ ہے۔ محقق ابن امیر حاج نے حلیہ میں اس مقام میں طویل تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیشک اس فعل کا کرنا مشروعیت بتانے کے لئے ہی درست ہے جس سے انکار ممکن نہیں جیسا کہ امام نووی نے ذِکر کیا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ فعل سے مشروع بتانا قول سے اقویٰ ہے پس آپ کا یہ فعل بیان جواز کے لئے تھا۔ اور تعلیق الممجد میں ہے:
قال النووی ادعی بعض المالکیۃ انہ منسوخ وبعضھم انہ من الخصائص وبعضھم انہ لفرورۃ وکلھا دعاوی باطلۃ مردودۃ لا دلیل علیھا الخ
ترجمہ: نووی کہتے ہیں کہ بعض مالکیہ نے اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بعض آپ کا خاصہ بناتے ہیں اور بعض ضرورت کے لئے کہتے ہیں حالانکہ یہ سب دعوے باطل اور مردود ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں ۔ (باقی آئندہ)