کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 46
سوال: کیا آٹھ ہی رکعت تراویح سنت ہے؟ جواب: ہاں ۔ مگر باقی مستحب ہے۔ رد المحتار کے ص ۷۳۸ میں ہے: وذکر فی الفتح ان مقتضی الدلیل کون المسنون منھا ثمانیۃ والباقی مستحبا وتمامہ فی البحر اٰہ۔ ترجمہ اور فتح القدیر میں ذِکر کیا ہے کہ دلیل کا تقاضا آٹھ رکعت کا سنت (مسنون) ہوتا ہی ہے اور باقی مستحب ہیں ۔ اس کی پوری بحث بحر الرائق میں ہے۔ سوال: بنظر دفع بلاء مثل وباء وغیرہ کے نماز فرض فجر میں بعد رکوع کے قنوت پڑھنا جائز ہے یا نہ؟ جواب: جائز ہے رد المحتار کے ص ۷۰۲ میں ہے: فیقنت الامام فی الجھریۃ اٰہ یوافقہ ما فی البحر والشر نبلالیۃ عن شرح النقایۃ عن الغایۃ وان نزل بالمسلمین نازلۃ قنت الامام فی صلاۃ الجھر وھو قول الثوری واحمد اٰہ وکذا ما فی شرح الشیخ اسمعیل عن البنایۃ اذا وقعت نازلۃ قنت الامام فی صلٰوۃ الجھریۃ لکن فی الاشباہ عن الغایۃ قنت فی صلٰوۃ الفجراٰہ وھل المقتدی مثلہ ام لا وھل القنوت ھنا قبل الرکوع ام بعد لا لم ارہ والذی یظھر لی ان المقتدی یتابع امامہ الا اذا جھر فیو مّن وانہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ الخ ترجمہ: پس جہری نماز میں امام قنوت پڑھے اور یہ بحر الرائق اور شربنلالیہ میں جو شرح نقایہ سے منقول ہے اس کے موافق ہے اور اس میں غایہ سے منقول ہے کہ اگر مسلمانوں پر بلا نازل ہو تو امام جہری نمازوں میں قنوت پڑھے اور یہ قول ثوری اور احمد کا ہے۔ اسی طرح شرح میں شیخ اسماعیل کے بنایہ سے منقول ہے کہ جس وقت کوئی بلا آئے تو امام جہری نمازوں میں قنوت پڑھے لیکن اشباہ میں غایہ سے منقول ہے کہ نماز فجر میں قنوت پڑھے لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ مقتدی بھی امام کی طرح پڑھے یا نہ پڑھے اور قنوت رکوع سے پہلے پڑھے یا بد میں ، مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ جب امام جہر کرے تو مقتدی اپنے امام کی پیروی میں آمین کہے اور قنوت رکوع کے