کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 45
یہ اس کے مشروع اور جائز ہونے کے منافی نہیں ہے۔
سوال: مابین اذان مغرب و فرض کے دو رکعت نفل پڑھنا مباح ہے یا نہ؟
جواب: قبل فرض مغرب کے مباح ہے۔ در مختار میں ہے:
وحرر اباحۃ رکعتین خفیفتین قبل المغرب واقرہ فی البحر والمصنف اٰہ
ترجمہ: اور مغرب سے قبل ہلکی سی دو رکعات کو جائز لکھا ہے اور بحر الرائق میں اور مصنف نے اس کا اقرار کیا ہے۔
مولانا عبد الحی بحر العلوم نے ارکانِ اربعہ میں تحریر کیا ہے:
وقد روی عبد اللّٰه بن مغفل قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم صلوا قبل المغرب ثم قال صلوا قبل المغرب اٰہ وعن انس کان المؤذن اذا اذان قدم ناس من اصحاب النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یبتدرون۔
السواری حتی یخرج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وھم کل ذلک یصلون اٰہ
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نماز پڑھو مغرب سے پہلے، پھر فرمایا نماز پڑھو مغرب سے پہلے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مؤذن جب اذان کہتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے لوگ جلدی جلدی ستونوں کی طرف بڑھتے حتیٰ کہ جب آپ تشریف لاتے تو وہ سب (مغرب کے فرضوں س پہلے) نماز پڑھ رہے ہوتے الخ۔
اور مولانا محمد عبد الی نے سعایہ میں تحریر فرمایا ہے:
فلو صلی احیانا بحیث لم یلزم منہ تاخیر المغرب لم یکرہ البتۃ کما ھو مقتضی تطبیق الاحادیث بعضھا ببعض اٰہ
ترجمہ: اگر اتفاقاً کوئی شخص اس طرح نفل پڑھے کہ فرض نماز میں تاخیر نہ ہو تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ بعض احادیث کی آپس میں تطبیق کا یہی تقاضا ہے۔