کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 44
وقت شروع ہو جاتا ہے مگر صاحبین کے ہاں جب ہر شے کا سایہ اس کے برابر ہو جائے اسی طرح جامع المضمرات اور فتاویٰ حمادیہ میں ظہیریہ سے منقول ہے ار فتوے صاحبین کے قول پر ہے۔ تاسیس اور اسرار سے منقول ہے کہ ہمارے نزدیک بھی صاحبین کے قول کی اقتداء کی گئی، اور در مختار میں ہے کہ امام صاحب سے بھی، صاحبین کے قول یعنی ایک مثل پر عصر ہونا، مروی ہے اور یہ قول صاحبین، زفر اور ائمہ ثلاثہ کا ہے اور امام طحاوی نے کہا ہے کہ ہم بھی ایک مثل کو اختیار کرتے ہیں اور غرر الاذکار میں بھی ایک مثل کو اختیار کیا گیا ہے اور برہان میں ایک مثل ظاہر تر ہے حضرت جبریل کے اس بیان کی وجہ سے جو اس سلسلہ میں نص قطعی ہے۔ فیض میں ہے کہ اسی پر لوگوں کا عمل رہا اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا رہا۔ خزانۃ الروایات میں ملتقی البحار سے منقول ہے کہ امام صاحب نے امام ابو یوسف اور امام محمد کے قول ایک مثل پر ظہر کا وقت ختم ہونے اور عصر کا وقت شروع ہونے کی طرف رجوع کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ فریقین کے دلائل سے واقف کار شخص بخوی جانتا ہے کہ صاحبین کا قول قوی ہے اور امام صاحب کا قول ضعیف ہے۔ لہٰذا اس شخص کا فتویٰ معتبر نہیں ہے جو امام ابو حنیفہ کے مشہور قول پر دے۔
سوال: نقرض کو جیسا کہ بعد رکعتین اولیین کے اقتصار سورۂ فاتحہ پر کرنا جائز ہے۔ ویسے ہی اس کو سورۂ فاتحہ کے ساتھ ضم سورہ بھی جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: جائز ہے۔ رد المختار ص ۵۳۳ میں ہے:۔
لو ضم الیھا سورۃ لا باس بہ لان القراءۃ فی الاخریین مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحہ مسنون لا واجب فکان الضم خلاف الاولی وذلک لا ینافی المشروعیۃ والاباحۃ اٰہ
ترجمہ: اگر پچھلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملا لے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ پچھلی دونوں رکعات میں بغیر تعیین کے قرأت مشروع ہے اور صرف سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی مسنون ہے واجب نہیں مگر سورہ کا ملا کر پڑھ لینا ثانوی حیثیت کا حامل ہے لیکن