کتاب: محدث شمارہ 9 - صفحہ 41
تھے، چونکہ حدیث مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھی اس لئے انہوں نے بض احادیث کا انکار کر دیا۔
امام کا موقف:
علمائے حق ہمیشہ ایسے لوگوں کے خلاف علم جہاد بلند رکھتے ہیں ۔ امام موصوف نے بھی اس سلسلہ میں اپنے فرض کو پہچانا اور حجیت حدیث کے موضوع پر ایک اہم کتاب ’’السنۃ‘‘ لکھی، اِس کتاب میں امام نے ٹھوس دلائل سے منکرین حدیث پر علمی تنقید فرمائی ہے۔ اِس کتاب کے ایک اہم باب کا ترجمہ ہدیہ قارئین ہے۔ جس کا عنوان ہے۔ ’’ان سنتوں (احادیث) کا بیان جو قرآن مجید کے ان مجمل مقامات کی تفسیر ہیں جنہیں حل کرنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تھا۔ کیونکہ اگر اس تفسیر کو چھوڑ دیں اور صرف الفاظ قرآنی کو سامنے رکھیں تو ان کے معانی و مطالب حل نہ ہوتے تھے۔‘‘ حجت قطعی سے اس باب میں جس چیز کو واضح طور پر امام نے پیش کیا ہے اور جن منکرین کا رد کیا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو ذخیرۂ احادیث کو بالکل ہی ٹھکرا دیا جائے۔ اس صورت میں اسلام کے بنیادی ارکان پر بھی عمل ممکن نہیں ۔ کیونکہ ان کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی اصلی مراد سمجھ نہیں آتی اور یا پھر کلیۃً اس قبول کر لیا جائے، بشرطیکہ وہ صحت و ضعف کے معیاری اور معروف اصولوں پر پوری اتر آئے۔ یہی صحیح ہے اور اس صورت میں وہ نظریات جن کو قرآنی ظاہر کرنے کے لئے آیات کی غلط تاویل کی جاتی تھی۔ احادیث نبویہ سے ان کا بطلان ثابت ہو جائے گا۔
اسلامی اقدار سے معاشرہ کی روگردانی دیکھتے ہوئے آ بھی کچھ لوگ مشرق و مغرب کے نظام ہائے زندگی پر اسلام کا لیبل لگا کر قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین نزاع اور معنوی رقابت پیدا کرنے کے در پے ہیں اور یا تو سنت (احادیث) کا قرآن مجید سے اختلاف ظاہر کر کے لوگوں کی توجہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر سے ہٹا کر اپنی تاویلوں کی طرف لگانا چاہتے ہیں یا سرے سے ہی ذخیرہ احادیث کو مشکوک اور عجمی سازشیں قرار دے کر نئی پود اور خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ کو اس سے برگشتہ کر رہے ہیں ۔